Skip to main content
Haadiya e-Magazine

Haadiya e-Magazine

By Haadiya e-Magazine

ماہ نامہ ‘ھادیہ’ ای-میگزین جدید تقاضوں کے پیش نظر، اس امید کے ساتھ کہ یہ خواتین میں فکر وعمل کے لیے راہ ہموار کرے گا، انہیں دور جدید سے ھم آہنگ کرے گا اور خواتین کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ثابت ہو گا
Currently playing episode

خوش گوار خاندان تحسین عامر

Haadiya e-MagazineMay 01, 2024

00:00
05:06
خوش گوار خاندان تحسین عامر

خوش گوار خاندان تحسین عامر

آج فرزین اسکول سے لوٹا تو کچھ عجیب سی کیفیت تھی اس کی۔ کسی نہ کسی بات پر وہ ناراض دکھائی دے رہا تھا۔
مما نے کھانے کا پوچھا تو کہنے لگا:’’ مجھے نہیں کھانا ۔کیا پکایا ہوگا آپ نے؟وہی دال سبزی، ہنہ!‘‘
’’اچھا! لگتا ہے تھک گئے ہو۔منہ ہاتھ دھولو اور کچھ آرام کرلو۔میں آپ کےلیے شربت بناتی ہوں۔‘‘ فرزین کی مما نے پیار سے کہا۔
فرزین منہ ہاتھ دھوکر ہال میں داخل ہوا۔ ابو کو دادی اماں کے قریب بیٹھے دیکھ کر اسے تعجب ہوا۔ آج ابو خلاف معمول فرزین سے پہلے گھر جو پہنچے تھے۔
’’السلام علیکم بیٹا!‘‘ ابو نے پہل کی۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ فرزین نے بجھا بجھا سا جواب دیا۔
’’کیا بات ہے فرزین! تھک گ ہو؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ اس نےآہستہ سے جواب دیا۔
’’کیوں بھئ؟ کیا بات ہے؟ آٹو نہیں آیا تھا کیا؟‘‘ابو نے پوچھا۔
’’A.Cتو نہیں لگا ہے آٹو میں۔‘‘ فرزین منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
ابو نے غور سے فرزین کو دیکھا۔وہ کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے۔اتنے میں مما ٹرے میں ٹھنڈےاور میٹھےروح افزا کے گلاسزسجاے لے آئیں۔ابو نے اٹھ کر ٹرے سے گلاس اٹھایا اور دادی اماں کومحبت سے پیش کیا۔دادی ماں نے مسکرا کر بیٹے کے ہاتھ سے گلاس لیا۔
’’تم بھی لو بیٹے!‘‘دادی ماں کہنے لگیں۔ تب تک مما نے ایک گلاس ابو کی جانب بڑھایا،اور دوسرا فرزین کی طرف۔سب شربت کے چسکیاں لینے لگے۔ابو نے کن انکھیوں سے فرزین کو دیکھا۔ شربت کے گھونٹ لینے پر بھی فرزین کا چہرہ جوں کا توں تھا۔انھوں نے پہلو بدل کر دادی اماں کو مخاطب کیا:’’اماں! مجھے وہ کیری اور سونف کا شربت یاد آرہا ہے جو میرے اسکول سے لوٹنے پر آپ میرے لیے بنایا کرتی تھیں۔‘‘
’’یا اللہ! وہ بھی کیا دن تھے۔‘‘دادی اماں کو وہ پرانے غربت کے دن یاد آگئے۔
’’ مٹکے کے پانی سے تمھارے لیے شربت بناتی تھی۔ بیٹا تم بھی تو بھری دوپہر میں پیدل چل کر لوٹتے تھے مدرسے سے۔‘‘
’’ پیاری اماں! وہ شربت پی کر ، چادر کو گیلی کرکے کھڑکی پر لٹکادینا ، پھر اس کی ٹھنڈی ہوا میں سوجانا۔آہا ہا… ہا…!‘‘
اب فرزین کے حیرانی کی باری تھی۔ اس نے غور سے ابو کا چہرہ دیکھا۔فرزین کو اس کے ابو اپنی امی سے گفتگو کرتے ہوئےبالکل بچہ دکھائی دینے لگے۔اتنے میں فرزین کی مما گود میں ننھی مریم کو لیے ایک ہاتھ میں مریم کے کھانے کی پلیٹ لیے آ پہنچیں۔نیچے قالین پر آہستہ سے مریم کو کھلونے دےکر بٹھایا۔فرزین مما کے پاس کھسک آیا۔
دادی اماں ابو سے کہہ رہی تھیں:’’ بیٹا !کچھ کم تھا، لیکن اللہ نے بڑی خوش گواری دی تھی، الحمدللہ!آج بھی ہمارا خاندان خوش گوار ہے۔‘‘
دادی اماں سے یہ جملہ سن کر فرزین کا تجسس بڑھا۔اس نے آہستہ سے مما سے پوچھا:’’ مما! خوش گوار خاندان، یعنی …؟‘‘
’’خوش گوار خاندان یعنی خوش خاندان، جہاں گھر کے افراد ایک دوسرے سے خوش رہتے ہوں۔ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، چھوٹے بڑوں کی عزت اور خدمت کرتے ہوں، اور بڑے چھوٹوں سے محبت اور دعائیں دیتے ہوں۔ایک دوسرے کی قدر کرتے ہوں ایک دوسرے کے شکر گزار رہتے ہوں، وہ خوش گواریعنی Happy Family کہلاتی ہے۔‘‘ مما نے اسے سمجھایا۔

May 01, 202405:06
کثرت میں وحدت (Unity in diversity) صبورا حورعین

کثرت میں وحدت (Unity in diversity) صبورا حورعین

کثرت میں وحدت یااتحاد کا وہ تصور ہے جہاں مختلف مذاہب، ثقافت، نسل،زبان ،نظریات ،طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ہی خطے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرتے ہوں۔

ہندوستان میں تنوع

’’تنوع میں اتحاد‘‘ یہ لفظ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور کتاب ’’The Discovery of India‘‘ میں سب سے پہلے وضع کیا تھا۔
ہندوستان بھر پور تنوع کی سرزمین تصور کیا جاتا ہے، ہندوستان تقریباً 5000 سال پرانی خوش رنگ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے، جہاں صدیوں سے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں نے مل کر امن و سکون کے میٹھے راگ گائے ہیں، اور ہندوستان کو ست رنگی ملک بنایا ہے۔
آئیے ہندوستانی تہذیبی تنوع کو سمجھتے ہیں!
مشہور ماہر لسانیات گریئرسن نے 179 زبانوں اور 544 بولیوں کو نوٹ کیا ، مزید یہ کہ 1971 ءکی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 1652 زبانیں بولی جاتی ہیں، ہمارے ہندوستانی آئین میں تقریباً 22 زبانوں کا ذکر ہے جن میں آسامی، بنگالی، گجراتی، ہندی، کنڑ، کشمیری، کونکنی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، اوڑیا، پنجابی، سنسکرت، سندھی، تامل، تیلگو، اردو، بوڈو ، نیپالی، سنتھالی، میتھلی، ڈوگری یہ ساری زبانیں شامل ہیں۔
ہندوستان میں ایک طرف لمبے سروں والے بحیرۂ روم کی نسل کے لوگ رہتے ہیں تو دوسری طرف چوڑے سروں والےالپائن نسل کے لوگ بھی رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی کروڑ قبائلی لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں اور سب اپنی الگ ہی ثقافت کے ساتھ ایک ہی سر زمین پر امن کے ساتھ چل رہے ہیں، ہندوستان میں تقریباً 3000 ذات پات کے گروہ موجود ہیں۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب مثلاً ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کا وجود عرصہ ٔقدیم سے زندہ ہے ۔ہندوستان کے دستور کا آرٹیکل 27 – 28 میں مذہب کی آزادی کا تصور ہندوستان کو مکمل سیکولر تصور کرواتا ہے، ہندوستان ’’دنیا ایک خاندان ہے‘‘ کے تصور پر یقین رکھتا ہے، ہندوستان کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی قدروں کی مثال ہے۔

May 01, 202407:14
اردو افسانہ تحقیق وتجزیہ کتاب: اردو افسانہ تحقيق وتجزيہ، ترتيب و تزئين:ڈاکٹر محمد خليل صديقي قاضي، تبصرہ نگار: سيدہ ايمن عبدالستار

اردو افسانہ تحقیق وتجزیہ کتاب: اردو افسانہ تحقيق وتجزيہ، ترتيب و تزئين:ڈاکٹر محمد خليل صديقي قاضي، تبصرہ نگار: سيدہ ايمن عبدالستار

یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان میں قصہ ،کہانی اور حکایتوں کا چلن عام تھا،اور ان قصے کہانیوں میں کوئی نہ کوئی فکر اور سمجھانے والی بات ضرور پوشیدہ ہوتی تھی۔ داستان ،ناول اور افسانہ دراصل ایک ہی نثری صنف کے مختلف روپ ہیں، ان تینوں کو ملاکر افسانوی ادب یا فکشن کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
افسانہ، یہ صنف اردو زبان میں مغربی ادب کی دین ہے۔ افسانہ، اردو ادب میں مغربی زبان وادب کے راستے آیا اور ہندوستانی رنگ روپ میں رچ بس کر مقامی مزاج سے اس قدر ہم آہنگ ہوا کہ اس کی وضع سے یہ امتیاز کرنا اب مشکل ہے کہ یہ غیر ملکی صنف ہے ۔جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر اردو افسانہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران ہیئت کے تجربات سے گزرتا رہا ،جس کی وجہ سے کہانی سے گریز کے رحجان کو تقویت حاصل ہوئی، جب کہ افسانہ درحقیقت فنی اعتبار سے مختصر احاطہ کرتا ہے، جس میں پلاٹ، کردار، مناظر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
وقت سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے اور جب وقت بدلتا ہے تو اپنے ساتھ ہر شے کو بدل دیتا ہے۔ بہت سی اشیاء میں تغیر پیدا کر دیتا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب حضرت انسان کےپاس وقت زیادہ تھا تو داستانوں، کہانیوں، قصوںمیں دل چسپی لیتا تھا، لیکن جب وقت بدلا ؤقت نے اپنی آبرو سمیٹے تو انسان نے بھی وقت کی قلت کو شدت سے محسوس کیا تو افسانہ اور افسانچہ جیسی صنف وجود میں آئی۔
زیر نظر کتاب’’ اردو افسانہ تحقیق و تجزیہ ‘‘ ان ہی موضوعات پر مضامین کے مجموعے کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مرتب’’ ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی‘‘ ہیں، جنھوں نے کتاب کی ترتیب و تزئین بھی کی ہے، انتساب میں ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی صاحب نے لکھا ہے:
’’ میری والدہ محترمہ مقبول النساء عرف ذاکرہ بیگم صاحبہ (مرحومہ ) کے نام، جن کی افسانوی زندگی نے مجھے حقیقی زندگی سے روشناس کروایا ..!! ‘‘
مقدمہ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’ اس کتاب میں شامل تمام مضامین ملک کی معروف جامعات کے محنتی اور ایمان دار قلم کاروں کی عرق ریزی کا نتیجہ ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ دو سالوں میں یہ ہماری چھٹی ایسی کتاب ہے ،جو مختلف جامعات یا تحقیقی اداروں کے ریسرچ اسکالرس کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے اور ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ دن بدن نئے نئے قلم کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ آئیے! ہمارے ان قلم کاروں سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں، جن کی قیمتی تحریروں سے کتاب کو سجایا گیا ہے ۔‘‘
اس کے بعد اس کتاب میں موجود مضامین کے 61 قلم کاروں کا مختصر و جامع تعارف کروایا گیا ہے۔ اردو افسانہ آزادی سے قبل( شاہ وید میر پٹیالہ)،حب الوطنی اور اردو افسانہ( عابد سلمیٰ چنگیری)،اردو فکشن میں حب الوطنی( ڈاکٹر صفیہ بانو اے شیخ، گجرات )،آزادی کے بعد افسانہ نگاروں کی پہچان( نثار احمد ڈار، کشمیر)، آزادی کے بعد افسانوی تحریک (عائشہ عبد العزیز پٹھان ،شولاپور )، آزادی کے بعد ابھرتی افسانہ نگار( جی راکعہ نازنین، تمل ناڈو)، آزادی کے بعد افسانے کی اہمیت ( کوثر شہناز، کریم نگر) اوران کے علاوہ متعدد عناوین پر مختلف قلم کاروں کے مضامین شامل کتاب ہیں۔
’’تمل ناڈو میں اردو افسانہ نگاری آزادی کے بعد‘‘ کے عنوان پرڈاکٹر کےایچ کلیم اللہ، تمل ناڈو نےاور’’ تمل ناڈو کی خواتین افسانہ نگار آزادی کے بعد‘‘سے معنون مضمون کو پی محمد جعفر ،آمبور ،تمل ناڈو نے بہت جامع انداز میں لکھا ہے۔

May 01, 202410:24
درس حدیث : خرچ میں میانہ روی صفیہ فاطمہ فلاحی

درس حدیث : خرچ میں میانہ روی صفیہ فاطمہ فلاحی

کھانے اور پینے میں اعتدال

عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما مرفوعاً : “كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَة، وَلَا سَرَف”(ابن ماجه)

( کھاؤ ، پیو ، صدقہ کرو اور پہنو بغیر تکبر اور فضول خرچی کے ۔)
عبدﷲ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سعدؓ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا:
’’ اے سعد! یہ اسراف کیسا؟‘‘
عرض کیا:
’’ یا رسول اللہ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟‘‘
فرمایا:
’’ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔‘‘
درج بالا احادیث اللہ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے :

كلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ
(سورۃ الاعراف : 31)

کھانا پینا اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا دین داری اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے ، دین داری اور تقوی ٰکے خلاف جو چیز ہے وہ ہے اسراف۔
اسراف ،خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنے کا نام ہے ، بعض نے کہا ہے کہ حرام کھانا یا حلال چیز میں سے ضرورت اور اعتدال سے زیادہ کھانا اسراف ہے ، بعض نے کہا ہے کہ اسراف اس بات کا نام ہے کہ مناسب جگہ پر مناسب مقدار سے زائد مال خرچ کیا جائے ،جب کہ تبذیر یہ ہے کہ نامناسب موقع پر خرچ کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ قائم بالقسط ہے ،اس وجہ سے وہ مقسطین یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، یہ بے اعتدالی افراط کی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے ، تفریط کی نوعیت کی بھی، اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کی پسند کے خلاف ہیں ، اللہ یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے اور پہننے کو مقصود بنا لے اور رات دن اسی کی سردیوں میں مشغول رہے، پورا کا پورا مال اپنے اوپر ہی خرچ کر ڈالے ، اس میں دوسرے کے حق کو نہ پہچانے اور نہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ بالکل رہبانیت ہی اختیار کر لے ۔
تبذیر اور تفریط دونوں ہی شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں ، خدا زندگی کے ہر پہلو میں عدل و اعتدال کو پسند کرتا ہے، انسان جب راہِ حق سے بھٹکتا ہے وہ افراط کا شکار ہوتا ہے یا تفریط کا شکار ہوتا ہے ۔
اصلی نقطہ یہ ہے کہ عدل و اعتدال کیا ہے اور حدِ اسراف کیا ہے ؟
یہ بات انسان کی عقل سلیم اور فطرت سلیم پر چھوڑ دی گئی ہے، اس لیے کہ کوئی قانونی حد بندی ممکن نہیں ہے، حالات کے اعتبار سے اس میں فرق ہو سکتا ہے، ایک غنی اور ایک فقیر دونوں کے لیے کوئی ایک معیار مقرر نہیں ہو سکتا ہے ، دونوں کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانا اور کھانا پینا مباح ہے لیکن اسراف اور تبذیر جائز نہیں ہے، اس لیے کہ :
’’اللہ تعالیٰ مسرفین کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
کے الفاظ معمولی نہیں ہیں ، خدا جن کو دوست نہیں رکھتا ،لازماً وہ اس کے نزدیک مبغوض ہیں ۔

May 01, 202403:54
درس قرآن امّ نوفل فلاحیؔ

درس قرآن امّ نوفل فلاحیؔ

وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ‌ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا ۞وَاِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡهُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَةٍ مِّنۡ رَّبِّكَ تَرۡجُوۡهَا فَقُلْ لَّهُمۡ قَوۡلًا مَّيۡسُوۡرًا ۞وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ۞(سورۃ بنی اسرائیل: 26-29)

(اور تم قرابت دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے۔اور اگر تمھیںاپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کے ملنے کی تم کو امید ہو ، کبھی ان سے اعراض کرنا پڑے تو انھیں نرم گفتاری سے جواب دے دو۔ اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑو کہ ملامت زدہ اور در ماندہ ہوکر بیٹھے رہو۔)

یہ سورہ اسراء کی آیات ہیں، جس میں عقیدۂ توحید کو اخلاق وآداب اور انفرادی و اجتماعی فرائض کا منبع بتایا گیا ہے۔تمام قرآنی اوامر کی بنیاد توحید ، عدل و احسان اور ذوی القربیٰ کے لیے انفاق پر ہے۔
سورۂ نحل کی آیت نمبر 9 میں اس کا اختصار سے ذکر تھا ۔ اور اس سورہ میں بہت تفصیل سے ان اوامر و منہیات کا ذکر ہے،جس کی وجہ سے ان آیات کو قرآنی منشور ، اسلامی زندگی کا دستور کہا جاتا ہے۔ان آیات میں چار دفعات کا ذکر ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آدمی کی دولت ، اس کی کمائی صرف اسی کے لیے نہیں ہوتی ہے، بلکہ اپنی ضروریات میں اعتدال سے خرچ کرتے ہوئے رشتہ دار وں، مسکینوں اور دیگر ضرورت مندوں پر بھی خرچ کرنا واجب ہے۔
• ماقبل آیات میں خدائے واحد کی بندگی کی تاکید اور شرک کی مذمت کی گئی ہے،کیوں کہ تمام عقائد و احکامات عقیدۂ توحید ہی سے پھوٹتے ہیں ،اسی سے افعال و معاملات عبادت میں تبدیل ہوتے ہیں،اور اس کے بعد بہت خوب صورت اسلوب میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے۔ مذکورہ آیات میں وسیع انسانی تعلقات کو مستحکم رکھنے اور باہمی اخوت و محبت کی فضا قائم کرنے پر زور دیا گیا جس کی بنیاد انفاق اور تعاون پر ہے۔

May 01, 202412:54
استاد اور ماں، باپ معاشرے کے کلیدی معمار علیزے نجف

استاد اور ماں، باپ معاشرے کے کلیدی معمار علیزے نجف

ڈاکٹر عبد الکلام کا ایک بامعنی قول ہے :
’’اگر کسی ملک کو بدعنوانی سے پاک اور اعلیٰ خطوط پر معیاری قوم بنانا ہے تو مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی جوتین شخصیات تبدیلی لا سکتی ہیں وہ ماں، باپ اور استاد ہیں۔‘‘
اس وقت ہمارے معاشرے میں غیر متوازن تبدیلی نے جس طرح کا ماحول پیدا کیا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ کسی کے نزدیک معاشرے کی اخلاقیات و اقدار اب روبہ زوال ہو رہے ہیں اور کسی کے نزدیک یہ تبدیلی حسب توقع ہے، اب ہمیں انھیں کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا اور نہ ہی اپنا رخ تبدیل کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو ہم یہاں معاشرے کی موجودہ صورت حال کی زبوں حالی اور ارتقاء پذیری پر بات کریں گے، بےشک تبدیلی دنیاوی نظام کا لازمی جزو ہے، جیسا کہ اقبال نے بھی کہا ہے:

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

 بےشک یہ تبدیلی انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے، لیکن اس تبدیلی کےلزوم سے قطعی یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ ہم ان اصولوں اور اقدار سے بغاوت کرنے لگیں جو کہ انسانی فطرت اور صالح معاشرے کے تشکیل میں ایک اہم تقاضے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی فطرت تجربات کے ذریعے زندگی میں بہتری لانے کی خواہش رکھتی ہے، ناکہ درست سمت کا تعین کیےبغیر خود کو کسی بھی راہ پر گام زن کر دیا جائے۔ بےشک یہ سچ ہے کہ تجربات سے ہمیشہ مثبت نتائج پیدا ہوں یہ ضروری نہیں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی جو مثبت اقدار کو سامنے رکھ کر قبول کی گئی تھی، لوگ اپنی مخرب ذہنیت اور منفی خیالات کے ذریعے اس سے برائی کو فروغ دینے لگ جاتے ہیں۔ معاشرے میں خیر و شر کی کش مکش ہمیشہ سے رہی ہے، اس لیے صورت حال کو یکسر ایک رنگ میں دیکھنے کی خواہش رکھنا فضول ہے، بحیثیت انسان ہم سب اس کے پابند ہیں کہ ہم اپنے ارد گرد کے تاریک گوشے میں اپنے حصے کی شمع کو جلائے رکھنے کی جدوجہد کرتے رہیں، یہ چاہنا کہ جب میں چراغ جلاؤں تو ہواؤں کو تھم جانا چاہیے انتہائی فضول ہے، یہی اختیار و ارادے کی آزادی اور کش مکش ہی تو انسانوں کے لیے ذریعۂ آزمائش ہے۔

Apr 24, 202412:39
ایک مہینہ ،کئی نام تحسین عامر

ایک مہینہ ،کئی نام تحسین عامر

پیارے بچو ! جانتے ہو یہ کون سامہینہ ہے؟
جی ہاں! یہ رمضان المبارک ہے۔بڑی برکت والا عظیم مہینہ ۔اسے نیکیوں کا موسم بہار بھی کہتے ہیں، کیوں کہ اس مہینے میں خوشی سے کوئی بھی نیک کام کرنے والے کو اللہ میاں فرض کے برابر اجر دیتے ہیں،اور اس مہینے میں ایک فرض ادا کرنے والے کو ستر فرض کے برابر ثواب عطا کرتے ہیں۔
آپ کو معلوم ہےکہ اس مہینے کو کیوں اتنی فضیلت حاصل ہے؟یہ فضیلت اصل میں قرآن مجید کے نزول کی وجہ سے ہے۔نبوت ملنے سے پہلے پیارے نبیﷺ کائنات پر غور وفکر کرتے تھے اور شہر مکہ کی آبادی سے دور غار حراء میں اپنے خالق ( پیدا کرنے والے ) کو یاد کیاکرتے تھے۔
ایک رات اللہ میاں نے اپنے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی پہلی وحی قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل فرمائیں۔ وہ ایک مبارک رات تھی، جسے قرآن مجید میں’’ شب قدر ‘‘کہا گیا ہے۔
پیارے نبی ﷺ نے اللہ کا پیغام سارے مکہ والوں کو سنایا اور ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔مکہ سے ہجرت کے بعد شعبان 2 ہجری میں مسلمانوں پر رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے۔اس لحاظ سے رمضان المبارک قرآن کی سال گرہ کا مہینہ ہے۔اسے ماہ قرآن بھی کہتے ہیں۔
پیارے بچو! اللہ میاں روزے کے ذریعہ اپنے بندوں میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔تقویٰ سے مراد اللہ سے ایسا ڈر جس میں محبت بھی شامل ہو۔اس کو ایسے سمجھتے ہیں ،آپ کی مما نے پانی سے بھرا کانچ کا گلاس مہمان کو دینے کے لیے کہا۔ آپ کو معلوم ہے کہ کانچ کا گلاس گرتے ہی ٹوٹ جاتا ہے ۔آپ کیا کریں گے؟ بہت احتیاط سے گلاس لیں گے، پوری توجہ سے اس پر نظر رکھیںگے کہ نہ گلاس چھوٹے اور نہ ہی پانی چھلکے۔ یہ احتیاط اصل میں تقویٰ ہے۔
بارہ سے چودہ گھنٹے کے روزے میں صرف اللہ میاں کی خاطر بندہ کھانے پینے سے رک جاتا ہے۔چاہے وہ اکیلا کیوں نہ ہو، ایک نوالہ بھی نہیں کھاتا اور وضو کے دوران پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں جانے نہیں دیتا۔ روزہ ہمیں صبر سکھاتا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ شدید گرما کی دوپہر ہے،حلق سوکھ رہا ہے، آئس کریم سامنے رکھی ہے،دل کھانے کو مچل رہا ہے،لیکن آپ نہیں کھاتے ،کیوں کہ آپ روزے سے ہیں۔ من پسند چیز سامنے ہے، خواہش بھی ہورہی ہے ، لیکن آپ اپنی خواہش پر کنڑول کرتے ہیں ۔ اس طرح رمضان صبر کی تربیت( ٹریننگ) کا مہینہ ہوا۔

Apr 24, 202405:02
مسلم نوجوانوں کےلیے مخلصانہ نصیحتیں مصنف : علامہ يوسف القرضاوي ، ترجمہ: مولانا سلمان ندوي ، تبصرہ نگار: اريشہ تقديس شعيب شہباز

مسلم نوجوانوں کےلیے مخلصانہ نصیحتیں مصنف : علامہ يوسف القرضاوي ، ترجمہ: مولانا سلمان ندوي ، تبصرہ نگار: اريشہ تقديس شعيب شہباز

چند دن پہلے اپنے کمرے میں بنی چھوٹی سی لائبریری کی صفائی کرتے وقت اچانک میری نگاہ اس کتابچے پہ پڑی۔یہ کتابچہ موٹی سی کتاب کے نیچے دبا ہوا تھا۔میں نے آہستہ سے اسے نکالا۔ فرنٹ کور پر علامہ یوسف القرضاوی کے نام پر میری نگاہ تھم سی گئی۔اتنے بڑے مصنف، مدبّر اور قابل احترام لیڈر کاکتابچہ! میرے منہ میں پانی آنے لگا۔جیسے وہ کتابچہ نہیں، گلاب جامن ہو۔خیر ہمیں گلاب جامن سے کیا لینا دینا۔ہم جیسے بھوکے قارئین کو تو صرف اچھی کتابوں کا ہی حرص رہتا ہے۔میں نے الماری کے پٹ کھلے چھوڑتے ہوئے بیڈ پر پھیلی کتابوں کو ہٹا کر جگہ بنائی اور بیڈ کے کارنر پر بیٹھ گئی۔یہ کتابچہ محض 43 صفحات پر مشتمل تھا۔
’’چلو اچھا ہے، پل بھر میں پڑھ لوں گی۔پھر کروں گی باقی کی صفائی۔‘‘ میں نے خود کو کہتے ہوئے ساتھ کمرے میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی کتابوں کو بھی مخاطب کیا تھا،جو منت بھرے انداز میں مجھ سے واپس الماری میں صفائی کے ساتھ رکھنے کی گزارش کررہی تھیں۔ ان کی گزارش کو میں نے اس طرح نظر انداز کیا جیسے بلّی دودھ پیتے وقت آنکھ بند کرکر ہمیں نظرانداز کرتی ہے۔
یہ کتابچہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے پبلش کیا گیا تھا،اور اس کی اشاعت 1995 ءمیں ہوئی تھی۔میں حیران ہوئی،اتنی پرانی کتاب!
پرانی کتابیں عموماً کچھ گاڑھی اردو میں لکھی جاتی تھیں،اس لیے مجھے کچھ خاص پسند نہیں آتیں یا یوں کہوں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتیں، لیکن یہ کتاب مجھے کچھ منفرد لگی،اس کا انداز ، الفاظ نہایت سادہ اور عام تھے، میری دلچسپی بڑھی، میں کتاب پکڑے صفحے پلٹنے لگی۔
یہ کتاب لفظ بہ لفظ بغور پڑھنے کے قابل ہے ویسے، اور ظاہر ہے میں یہاں ساری باتیں بیان بھی نہ کرسکوں۔ میں وہی لکھ رہی ہوں جو مجھے اسے پڑھ کر سمجھ آیا۔
اس کتابچےمیں مولانا نے مسلم نوجوانوں کو سات نصیحتیں کی تھیں۔میں غور سے پڑھنے لگی۔
پہلی نصیحت تھی’’امتیاز اور تخصّص کا احترام‘‘، تخصّص کہتے ہیں specialization کو۔کسی چیز میں ماہر ہونا۔ اور امتیاز کہتے ہے Discrimination کو۔ایسا کام جس میں آپ ماہر نہ ہوں،جس کاعلم نہ ہو،اس معاملے میں نہ پڑنا۔جیسے کوئی وکیل کسی بیمار کا چیک اپ نہیں کرسکتا،اسی طرح کوئی غیر علم والا کسی کو اپنے دل یا کم علمی کی مدد سے کوئی فتویٰ نہیں دےسکتا۔جس طرح بیمار کے چیک اَپ کےلیے ایک ڈاکٹر ہی کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح مسئلے کے حل کےلیے بھی کسی جاننے والے کی ہی ضرورت ہوگی۔یہاں مولانا نے کئی علماء دین کا نام لےکر جیسے امام مالکؒ، خلفاء راشدینؓ، حضرت سعیدبن المسیبؒ وغیرہ کی مثالیں دےکر بتایا کہ کس طرح وہ کثیر علم رکھنے کے باوجود بھی فتویٰ دینے سے ڈرا کرتے تھے اور کثرت سے مغفرت کی دعائیں کرتے تھے۔

Apr 24, 202417:54
درس حدیث  ماریہ سعید اختر فلاحی

درس حدیث ماریہ سعید اختر فلاحی

عن ابی الدرداء عن النبیّ قال مامن شیٔ اثقل فی المیزان من حسن الخلق (رواہ الترمذی و ابوداو‘د)

(ابودرداءؓسے روایت ہے، وہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا حسن اخلاق سے بڑھ کر میزان میں کوئی بھاری چیز نہیں ہوگی ۔)

عن جابر ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انّ من احبّکم الیّ واقربکم منی مجلسا یوم القیامة احسانکم اخلاقا
(رواہ الترمذی)

  ( جابرؓ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں اخلاق میں اچھے ہیں ۔)

عن عائشة ؓ انّ المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجة الصائم القائم (رواہ ابوداو‘د)

(حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہےکہ بے شک مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کرلیتاہے ۔)
حسن اچھائی اور خوب صورتی کو کہتے ہیں ۔اخلاق جمع ہے خلق کی، جس کا معنی ہےرویہ ،عادت،برتاؤ ۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ کو حسن اخلاق کہا جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں حسن اخلاق عظیم اہمیت کا حامل ہے ۔اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اس جوہر سے امت کو روشناس کرایا ۔متعدد احادیث حسن اخلاق کے متعلق مروی ہیں جن سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ہر مذہب اور ہر دھرم کے لوگ ،بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق وکردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے ،یہ فطرت انسانی کا اہم تقاضہ ہے۔یہی وہ عظیم صفت ہے جس کےذریعے معاشرے میں آپسی بھائی چارہ، عفوودرگزر اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے ۔اسی طاقت کے ذریعے آپسی اختلاف وانتشار ، باہمی رنجش اور ہر طرح کے تضاد دور کیے جاسکتے ہیں ۔
اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں حسن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے ،اور اس کی یہی خصوصیت حسن اخلاق کے حسن میں اضافہ کرتی ہے ۔ والدین، استاد ، بھائی بہن ، عزیز واقارب ، بیوی بچے ، یتیم ، مسکین ، مسافر ، قیدی ، پڑوسی اور غیر مسلم حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن اخلاق کا حکم ہے ۔
زندگی کے تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا ۔اسلام جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، محمد صلى الله عليه واٰله وسلم ان سب کا عملی نمونہ ہیں ۔اللہ کافرمان ہے:

 وانک لعلیٰ خلق عظیم (سورۃ القلم : 4)

(بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں ۔)

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا (سورۃ الاحزاب: 21)

(بےشک تمھارے لیے رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔)
آپ کی پوری زندگی اخلاق حسنہ کا عملی پیکر ہے، حتیٰ کہ آپ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم اور اس کی دعوت و تبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا:

 بعثت لاتمم مکارم الاخلاق

(میری بعثت اس لیےہوئی ہےکہ میں حیات انسانی میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں ۔)
اپنے اہل وعیال،اعزہ واقارب سے لگاؤاور محبت تو فطری چیز ہے، حسن اخلاق کا اعلیٰ نمونہ یہ ہےکہ غیر اور دشمن بھی ہمارے رحم وکرم ، عفو درگزر اور خوش خلقی سے محروم نہ رہیں ۔قرآن اس سلسلے میں ہماری بہترین تربیت کرتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

Apr 24, 202410:29
درس قرآن رمضان اور قرآن عارفہ خاتون

درس قرآن رمضان اور قرآن عارفہ خاتون

سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات ’’اِقْرَأْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ….‘‘ سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۃ الدخان میں ہے:

إِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ(سورۃالدخان : 3)

(ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے۔)
اور سورۃ البقرہ میں ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ(سورۃالبقرۃ: 185)

(رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔)
ان آیات میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق حاصل ہے، چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے۔ ماہِ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہِ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23 سال کے عرصےمیں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے، جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔‘‘
قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا کسی دن کا محتاج نہیں، ہر روز ہی یہ اپنے قاری کےلیےہدایت کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کی ایک منفرد اہمیت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان اور قرآنِ حکیم کا ایک گہرا تعلق ہے، یہ دونوں ابد تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید کتابِ رحمت ہے جو رمضان یعنی ماہِ رحمت میں نازل ہوئی ہے۔
تلاوتِ قرآن کے کچھ آداب ہیں، جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے، تاکہ ہم عند اللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چوں کہ ایک عبادت ہے، لہٰذا ریا وشہرت کے بجائے اس سے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوتِ قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروںتک پہنچانے کی کوشش کریں۔

Apr 24, 202408:26
یوم آب پر بچوں کے لیے کہانی تحسین عامر

یوم آب پر بچوں کے لیے کہانی تحسین عامر

شاداب نے نہانےکےلیے غسل خانے میں نل کھولا، بکیٹ بھرنے لگی۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ اپنے دوست کو فون کرنے چلا گیا۔ ادھر بکیٹ بھر کر پانی بہنے لگا ۔
دوپہر میں مما نے کچن کا نل کھولا، پانی نہیں آیا، انھوں نے بور ویل کی موٹر On کی ،اور دیگر کاموں میں مشغول ہوگئیں۔ ادھر ٹیرس کی ٹنکی بھر گئی اور پانی چھت سے گرنے لگا۔ پانی گرنے کی آواز پر دادا جان نے زوردار آواز لگائی:’’ کس نے بھری دوپہر میں موٹر چلایا؟فوراً بند کرو۔ ‘‘
’’کتنی مرتبہ کہا ہے ،پانی احتیاط سے استعمال کیا کرو۔ کسی کو بھی خیال نہیں رہتا۔ پانی ختم ہوا اور موٹر چلادیا۔ انگلی کی جنبش پر سب ملنے لگا ہے۔ دیہات میں جاکر دیکھو !پتہ چلےگا، پانی کی تلاش میں کیسے لوگ میلوں پیدل چلتے ہیں۔
ہر نعمت پر اپنا ہی حق نہ سمجھو، اللہ کی دوسری مخلوقات کا بھی حق یاد رکھو۔‘‘
پیارے بچو! دادا جان کو کیوں غصہ آیا؟ کیوں کہ پانی ضائع ہو رہا تھا۔
اس کرۂ ارض پر جتنے بھی جاندار ہیں، ان سب کی زندگی کی بقا پانی ہی پر منحصر ہے۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے۔ ہماری دنیا کا تقریبا 71 فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔جس میں سے صرف 0.5 فیصد پانی پینے کے قابل ہے،باقی ماندہ کھارا سمندری پانی ہے۔سارے علم اور ترقی یافتہ دور کے باوجود آج یہ صورت حال ہے کہ ہر تین افراد میں سے ایک فردکو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے۔
UNICEFکی رپورٹ کے مطابق پینے کے صاف پانی کی عدم دست یابی کی وجہ سے ہر سال ایک اعشاریہ چھ ملین (1.6) بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔بر اعظم ایشیا اور افریقہ کی کثیر تعداد دیہاتوں میں بستی ہے، جہاں انھیں پینے کے لیے صاف پانی دست یاب نہیں ہے۔ دیہات میں رہنے والی ہر خاتون کو پانی کی تلاش میں تقریبا ًچھ کلومیٹر پیدل چلنا ہوتا ہے، یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے ۔

Apr 24, 202404:23
رمضان : غفلتوں سے بیداری کا مہینہ خنساء سبحانی

رمضان : غفلتوں سے بیداری کا مہینہ خنساء سبحانی

رمضان،’’رمضا‘‘ سے بنا ہے اور’’ رمضا‘‘ خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں ،جو زمین سے گرد و غبار کو دھوڈالتی ہے۔ اسی طرح رمضان بھی اس امت کے گناہوں کو دھوڈالتا ہے، اور اس کے دلوں کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے، اور دوسرا قول یہ بھی ہے کہ رمضان ،’’رمض‘‘سے بنا ہے اور’’ رمض‘‘ سورج کی تیز دھوپ کو کہتے ہیں، اور اس مہینے میں روزہ داروں پر بھوک اور پیاس کی شدت بھی تیز دھوپ کی طرح سخت ہوتی ہے، یا جس طرح تیز دھوپ میں بدن جلتا ہے، اسی طرح رمضان میں گناہ جل جاتے ہیں ،جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ رمضان اللہ کے بندوں کے گناہ جلادیتا ہے۔
سال کے بارہ اسلامی مہینوں میں رمضان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ انسان کے لیے بیش بہا تحفہ ہے، اس میں وہ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرسکتا ہے، اس کی قربت کو محسوس کرسکتا ہے، اپنی اصلاح کی کوششیں کرسکتا ہے، کیوں کہ اس مہینے میں کی جانے والی ہر عبادت اور نیکی کے ہر کام کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ اپنے رب سے کمزور پڑتاہوا تعلق نئے سرے استوار کیا جائے۔ اپنے اعمال میں بہتری لا کر اپنے خالق کو راضی کیا جائے،اپنے گناہوں کی معافی طلب کی جائے، اور اس کی خاطر بھوکےپیاسے رہ کر اسے اپنی محبت کا ثبوت دیا جائے، اور اس ماہ مبارک کا شدت سے انتظار کیا جائے جس کا نظام الاوقات متعین ہو، خاص کر اس ماہ کی ترجیحات طے ہوں، تاکہ ہمارا ایک پل اور ایک لمحہ بھی لایعنی کاموں میں نہ گزرجائے، کیوں کہ ہم میں کا ہر ایک اپنی بداعمالیوں کو بہتر جانتا ہے، زندگی میں کتنے ہی رمضان کے مہینے ملے ،جو ہماری کوتاہیوں کی نذرہوگئے۔
ہر سال ہم رمضان کی آمد سے پہلے خاکے بناتے ہیں کہ ہم اس سال ماہ رمضان کا پوری یک سوئی سے استقبال کریں گے، ہم نے اپنے رب کریم کی بڑی نافرمانیاں کی ہیں ،اس کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں، اس بار ہم اس کے قدموں میں سر بسجدہ ہوکر ندامت کے آنسو بہائیں گے، ایک نیا عزم ہوگا، اس کی اطاعت کا عہد لیں گے، اور باعمل زندگی کو اپنا لیں گے۔
ہم ہر سال سوچتے ہیں کہ اس رمضان میں ہم اپنے دل کے سارے بت توڑ ڈالیں گے، مَن کے مندر میں خواہشات واغراض کے جو سیکڑوں ہزاروں دیوتا بٹھا رکھے ہیں، ان سارے دیوتاؤں کو مسمار کردیں گے۔ہم ہر سال سوچتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے ہم ایک دوسرے سے مل کر اپنے دل صاف کرلیں گے، دل کی ساری رنجشیں، ساری کدورتیں، ساری نفرتیں، عداوتیں مٹادیں گے۔
قابل مبارک ہیں وہ جو ایسا منصوبہ بناتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، اپنے گناہوں سے اس ماہ میں پیچھا چھوڑالیتے ہیں، لیکن وہ محروم ہے جو رمضان سے پہلے منصوبہ تو بنائے، لیکن رمضان سستیوں، کاہلیوں، اور زندگی کے دیگر دوڑ دھوپ میں گزردے۔

Apr 24, 202405:39
رمضان المبارک: وقت کی تنظیم کا قیمتی پیمانہ ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

رمضان المبارک: وقت کی تنظیم کا قیمتی پیمانہ ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

وقت ایک ایسی قیمتی شے ہے جس سے انسانی ترقی کی معراج مربوط ہے۔انسانی زندگی وقت کے دائرے کے ارد گرد گھومتی ہے،جہاں سیکنڈ منٹ میں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہو کر دن کی تکمیل کرتا ہے اور اسی طرح دن اور رات کی آمدورفت کے ساتھ ہفتہ،مہینہ اور پھر سال اپنے اختتام کو پہنچتا ہے،اور زندگی کا سفر ماہ و سال میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وقت کی اسی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے انگریز فلاسفر نے متعدد محاورے قلمبند کیے ہیں،جن میں سے چند ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں:

‏Time is more valuable than money, you can get more money but you can’t get more time.
( Jim Rohan)

(وقت کی اہمیت پیسے سے زیادہ ہے کیونکہ تم مزید پیسے حاصل کر سکتے ہو،لیکن مزید وقت حاصل نہیں کر سکتے۔)

Time is free, but it’s priceless. You can’t won it, but you can use it. You can’t keep it but you can spend it. Once you’ve lost it you can’t never get it back

(وقت آزاد ہے مگر انمول ہے۔تم اسے جیت نہیں سکتے مگر اسے استعمال کرسکتے ہو۔تم اسے رکھ نہیں سکتے لیکن اسے خرچ کرسکتے ہو۔ایک بار جو وقت ضائع ہوگیا اسے تم کبھی بھی واپس نہیں لے سکتے۔)

‏Lost time is never found again. ( Benjamin Franklin)

Apr 24, 202411:14
درس حدیث نواب ہانی جمالی

درس حدیث نواب ہانی جمالی

(1)ایمان کا مسکن دل ہے

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا‌ ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَا يَلِتۡكُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِكُمۡ شَيۡئًــا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞(سورۃ الحجرات : 14)

(دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو اس وقت تمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو اللہ تمھارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔)

(2)ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ :‘‘بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ عُرِضُوا عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ فَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ اجْتَرَّه’’
قَالُوا :‘‘فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَهِ ؟’’
قَالَ : ‘‘الدِّين’’.

(صحيح بخاري، كتاب التعبير: 3691)

(حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں سویا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں،وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض کی قمیص تو صرف سینے تک ہے اور بعض کی اس سے بڑی ہے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو ان کی قمیص زمین پر گھسٹ رہی تھی۔‘‘
صحابہ نے پوچھا:
’’یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟‘‘

Apr 24, 202405:44
درس قرآن عارفہ خاتون

درس قرآن عارفہ خاتون

القرآن، سورۃ نمبر: 2 البقرہ،آیت نمبر : 165
أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلٰهِ ؕ

(حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔) (مودودی رحمۃ اللہ علیہ)
(اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ،وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔) (جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ)
ح ب ب، الحب والحبۃ،المحبۃکے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں۔
محبت تین قسم پر ہے :
( 1) محض لذت اندوزی کے لیے،جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناںچہ آیت :

وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً (سورۃ الدہر: 8)

میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے۔
( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر،جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناںچہ اسی معنی میں فرمایا :

وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ (سورۃالصف: 13 )

(اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو ،یعنی تمھیںخدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی۔)
( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے،جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں۔(مفردات القرآن)
یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دوسرے کی رضا پر مقدم ہو، اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کرسکتا ہو۔ (تفہیم القرآن)
محبت کا اصلی حق دار اللہ ہے
ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنے مزعومہ شریکوں اور ساجھیوں سے اس طرح محبت کرتے ہیں، جس طرح خدا سے محبت کرنے کا حق ہے، حالانکہ محبت کا اصلی حق دار اللہ ہی ہے۔ وہی ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ہے، وہی ہے جس کے ہاتھ میں سارا انتظام ہے اور اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلی ہوئی ربوبیت و رحمت سے اس بات کی شہادت مل رہی ہے کہ وہ رحمان و رحیم ہے، تو ا

Apr 24, 202425:28
نو عمر بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ(قسط:3) ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

نو عمر بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ(قسط:3) ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

نو عمری کےلیے 11 تا 18 سال کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے ۔عمر کے اس دور کو ماہرین بہت نازک دور مانتے ہیں۔ اس دور میں بچپن رخصت ہونے لگتا ہے اور بچے بالیدگی کے ابتدائی دور میں ہوتے ہیں۔ جسمانی، جذباتی، ذہنی تبد یلی کو بچوں کا ذہن فوراً قبول نہیں کر پاتا، اس لیے وہ اس عمر میں شدید ذہنی دباؤ سے گزرتے ہیں۔ بڑے عموماً دس سال کی عمر کے بچوں کو تابع دار ، حکم کی تعمیل کر نے والا پسند کرتے ہیں اور وہ فرماں بردار اور تابع دار ہوتے بھی ہیں،تاہم ٹین ایج (11 تا18 سال کی عمر میں بچے اور بچیاں بالکل مختلف ہو جاتی ہیں۔ اس دور کو GS Halls 1904) دباؤ اور جذباتی طوفان (storm and stress) کے دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ عموماً اس دور میں بچے بات بے بات الجھنے لگتے ہیں کیوں کہ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کر نے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان کے مشورے کو اہمیت دی جائے ، ان کے ساتھ بھی بڑوں کی طرح رویہ رکھا جائے۔ ماہرین اس کو دور کاذب (Pseudo-period) کہتے ہیں۔ ایساد ور جس میں بچے اپنے آپ کو بڑا انسان اور مکمل انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ ان میں اپنے آپ کو منوانے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے درمیان رہنا پسند کر تے ہیں جہاں ان کو عزت اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ عزت نفس کے تئیں بچہ بہت حساس ہوجاتا ہے۔ اگر ان سب باتوں کا علم نہ ہو اور بڑے ان کے ساتھ بچوںکی طرح رویہ روارکھیں اور زیادہ روک ٹوک کرنے لگیں تو نو عمر بچے جھنجلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی خو دی مجروح ہوتی ہے اور وہ بہت سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس عمر میں چاہیے کہ روک ٹوک کے بجائے ان کی صحبت کا خیال رکھیں اور ان کے Peer group سے آگاہ رہیں۔ روک ٹوک کے بجائے نوعمر بچوں کو مشاورت میں شامل کر یں۔ اس دور میں نوعمر بچوں کوپیش آنے والے تکلیف دہ حالات کا علم رکھیں’’ حکمت کی راہ‘‘ میں ہے کہ جس بات کی آپ اصلاح کروانا چاہتے ہیں،اس بات پر بچوں سے مشورہ کر یںاور ان کی باتوں کی پذیرائی بھی کر یں۔


Jan 31, 202409:53
مقابلہ تحسین عامر

مقابلہ تحسین عامر

ہر ایک طالبہ امید ویقین کی ملی جلی کیفیت میں تھی ۔اتنے میں انسٹر کٹر صاحبہ نے کچھ ہدایات دیں اور سیٹی بجائی۔دوڑ کا مقابلہ شروع ہوا ۔لڑکیاں پوری قوت کے ساتھ دوڑ نے لگیں۔ دونوں جانب اسکول کی طالبات محو مقابلہ تھیں۔حسب توقع صغریٰ سب سے پہلے مارکنگ لائن کو ٹچ کر کے واپس پلٹی تھی ۔ہر طرف سے صغریٰ صغریٰ کی پکار گونجنے لگی ۔ صغریٰ واپسی کا آدھا راستہ طے کر چکی تھی ،تبھی سب کو حیرانی ہوئی کہ فوزیہ نےبھی بڑی تیزی سے مارکنگ لائن کو ٹچ کیا اور بالکل صغریٰ کی قریب قریب پہنچ گئی ۔ ناظرین کے دو گروپ بن چکے تھے، کچھ فوزیہ فوزیہ کی رٹ لگا رہی تھیں تو کچھ صغریٰ کو اپنی رفتار بڑھانے کے لیے اکسا رہی تھیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں لڑکیاں برابر ہوگیں۔ اب مقابلہ سسپنس بڑھا رہا تھا ،منزل دونوں کی بالکل قریب تھی، طالبات و معلمات صرف دونوں پر نظر یں ٹکا ئے ہوئی تھیں۔ دیکھنا تھا اول کون آتا ہے ؟لیکن اچانک دیکھتے ہی دیکھتے صغریٰ لڑکھڑا کرگر گئی ،اس کی ہتھیلیاں اور گھٹنے زخمی ہوگئے، وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ،مگر اس کےلیے اٹھنا مشکل ہورہاتھا ۔اس دوران فوزیہ آگے بڑھ چکی تھی اور بس دو قدم پر جیت اس کا مقدر تھی۔چیخ کی آواز پر اس نے گردن گھما کر دیکھا تو صغریٰ بری طرح گری ہوئی تھی۔ بڑی تیزی سے فوزیہ کے دل و دماغ کےمابین مقابلہ شروع ہوا ۔دماغ نے تیزی سے دو قدم آگے بڑھنے کا حکم دیا،جب کہ دل نے اسے آگے بڑھنے سے منع کردیا ۔لمحے کے ہزارویں حصہ میں فوزیہ فیصلہ کر چکی تھی ۔فوزیہ نے دو قدم پیچھے ہٹ کرصغریٰ کو اٹھایا اور سائیڈ میں لے گئی ۔صغریٰ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اسے چوٹ سے زیادہ مقابلے میں ہارنے کی تکلیف ہو رہی تھی ۔فوزیہ نے صغریٰ کو کرسی پر بٹھایا، اس کے کپڑوں سے مٹی صاف کی ۔صغریٰ اور فوزیہ مقابلہ سے خارج ہو گئی تھیں۔

Jan 31, 202406:04
کامیاب اور خوش حال ازدواجی زندگی عذرا زمرد

کامیاب اور خوش حال ازدواجی زندگی عذرا زمرد

رشتۂ ازدواج کو اللہ تعالی نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے۔ یہ خوب صورت رشتہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس رشتہ کے ذریعہ اجنبی مرد اور عورت، ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے لیے زندگی کی بہت سی مسرتوں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ جس کے متعلق قرآن مجید خود واضح کرتا ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہیں۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (سورۃ الروم : 21)

(اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواور تمھارے درمیان محبت و الفت پیدا کردی۔)
یعنی خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں (Sexes) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغاز تخلیق سے برابر اس تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اس معاملہ میں اثر انداز ہوسکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیداہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اس معاملہ ہی میں اس کے اوپر اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔
ہزار ہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقا ًبھی نہیں ہوسکتا اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز صریحاً اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالق حکیم، اور ایک ہی خالق حکیم نے اپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بےحد و حساب مرد اور بےحد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔
یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیا ہے، بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے ،جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کردی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو ان کے باہمی اتصال و وابستگی کاسبب ہے، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی، لیکن کسی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ امنگ، وہ پیاس، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انھیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے،اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدن کی نشو و نما ہوئی۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں، مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انھیں ’’ گھر‘‘ کی تاسیس پر مجبور کردیا گیا۔ کون صاحب عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہ کار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقاً سرزد ہوگیا ہے ؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کرسکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزارہا برس سے مسلسل بےشمار مردوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کرتے چلے جائیں ؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کرسکتے ہیں۔

Jan 30, 202416:44
ملت کا تعلیمی ایجنڈا(ساتویں قسط) سید تنویر احمد

ملت کا تعلیمی ایجنڈا(ساتویں قسط) سید تنویر احمد

الحمدللہ ملک بھر میں مدارس کا سلسلہ قائم ہے۔ ان میں چھوٹے، متوسط اور بڑے ؛ہر طرح کے مدارس شامل ہیں۔ان مدارس پر کچھ اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جن مدارس کے پاس بڑی زمینیں اور وافر عمارتیں موجود ہیں، انھیں چاہیے کہ ان زمینوں اور عمارتوں کے ایک حصے میں عصری تعلیم کے لیے اسکول قائم کریں۔ عصری تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس کو بند کردیا جائے اور نہ ہی اس کا یہ مفہوم ہے کہ عصری علوم کی جو تعلیم گاہیں ان مدارس میں قائم کی جائیں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہو، بلکہ جو عصری تعلیمی درس گاہیں مدارس کے احاطے میں قائم ہوں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ بہتر طریقے پر کیا جاسکے گا۔ اس کی اہمیت و ضرورت کو اب دینی مدارس کے ذمہ داران بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ چناں چہ گذشتہ دنوں راقم یو پی کے ایک معروف مدرسے میں قیام پذیر تھا۔ وہاں ایک اور مدرسے کے کچھ ذمہ داران مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ اپنے مدرسے کے احاطے میں اسکول قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے مدرسے کے طلبہ کے لیے عصری علوم کا بندوبست کریں۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ مدارس کی انتظامیہ اور ذمہ داران میں عصری علوم میں دل چسپی کا محرک کیاہے اور یہ تبدیلی کیسے آئی؟ انھوں نے کہا کہ سوچ میں اس تبدیلی کے پیچھے متعدد اسباب ہیں۔ان میں ایک سبب ہے سرکاری پالیسیوں کا دباؤ اور دوسری وجہ ہے مخیر حضرات کی خواہش۔ مدارس کو چندہ دینے والوں کی اکثریت اب یہ چاہتی ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہو۔ اس رجحان کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما ہے کہ ملک کے بعض مدارس میں اب اسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم کے کام یاب تجربات ہورہے ہیں۔

Jan 30, 202409:56
النور درس حدیث   الماس اشتیاق

النور درس حدیث الماس اشتیاق

نبیﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہلاکت کا باعث ہے، جن کاموں سے آپ نے منع کیا ہو، اس سے پرہیز لازمی ہے ۔سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا ہے وہ بے انتہا عبرت آموز ہے ۔سورۂ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ نے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے اس کے ساتھ یہ معاملہ کیا کہ وہ سوال پر سوال کرتے رہے۔ مثلاً :گائے کیسی ہو ؟اس کا رنگ کیسا ہو ؟
جتنا وہ سوال کرتے گئے، اللہ تعالیٰ ان پر اتنی ہی قید لگاتا گیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس گائے کو ذبح کرنے کو کہہ دیا، جس کی محبت بہت زیادہ ان کے دلوں میں تھی، جس کو یہ پوجتے تھے۔اللہ کا حکم ملتے ہی اگر وہ اچھی نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کردیتے تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے ،لیکن اپنے ہر سوال پر وہ مشکل سے مشکل میں پھنستے چلے گئے ۔

Jan 30, 202404:32
النور درس قرآن عارفہ خاتون

النور درس قرآن عارفہ خاتون

’اَ‘‘ استفہام ہے یعنی سوال کیا جا رہا ہے۔’’اَرَءَ یْتَ‘‘ کااسلوب کسی کی طرف تعجب اور نفرت کے ساتھ متوجہ کرنے کے لیے آتا ہے۔
آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے، لیکن حقیقت میں یہ خطاب ہر اس آدمی سے ہے جو عقل رکھتا ہے اور جس کے اندر نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت ہے، اور یہاں دیکھنے سے مراد آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے اور جاننا،سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔
لفظ ’’دِیْن‘‘ یہاں جزاء و سزا کے معنی میں ہے، جس طرح ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحہ) میں ہے۔ ’’الدین ‘‘کے معنی جزا ءاور سزا بھی ہیں اور وہ نظام زندگی بھی جس کو اسلام کہتے ہیں ۔ یہاں دونوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ تعجب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم نے دیکھا ہے اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے، یا نفرت کے اظہار کے لیے کہا جا رہا ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے ؟مراد اس سے یہ ہے کہ جب تم اسے دیکھوگے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ اسلام بطور نظام زندگی کا انکار یا آخرت کا انکار انسان کے اندر کیسے برے اخلاق پیدا کرتا ہے ۔
آیت کے شروع میں’’ فا‘‘ کا لفظ یہ بتلاتا ہے کہ یہ جملہ جزائیہ ہے اور اس سے پہلے جملہ شرطیہ محذوف ہے۔ اصل میں’’ فذالک الذی‘‘ فرمایا گیا ہے، اس فقرے میں ’’ف‘‘ ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں :’’اگر تم نہیں جانتے تو تمھیں معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو …‘‘ یا پھر یہ اس معنی میں ہے:’’ اپنے اسی انکار آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو…‘‘ ’’ذا ‘‘کا لفظ اسم اشارہ ہے ،جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لیے آتا ہے ۔
(دع ) الدع کے معنی سختی کے ساتھ دھکا دینے کے ہیں، اصل میں یہ کلمہ ٔزجر ہے ۔
(ی ت م) الیتیم کے معنی نابالغ بچہ کے شفقت پدری سے محروم ہو جانے کے ہیں۔انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتیم کا اعتبار ماں کی طرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کو بن ماں کے رہ جانے کو یتیم کہتے ہیں ۔
اصل میں’’ یدع الیتیم‘‘ کا فقرہ استعمال ہوا ہے جس کےکئی معنی ہیں ۔ ایک یہ وہ یتیم کا حق مار کر کھاتا ہے اور اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یتیم اس سے مدد مانگنے آتا ہے، تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے ،اور اگر اس کا بس چلے تو وہ یتیم پر ظلم ڈھانے سے بھی باز نہیں آتا ،اور اس کی سنگ دلی کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اسے اس بات کا کوئی کھٹکا نہیں کہ قیامت آئے گی اور اسے اپنے مظالم اور ان حرکتوں کا جواب دینا پڑےگا ۔ اس سلسلے میں قاضی ابوالحسن ماوری نے اپنی کتاب :’’اعلام النبوۃ‘‘ میں ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا ۔وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دے دے، مگراس ظالم نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے مایوس ہو کر پلٹ گیا ۔ قریش کے سرداروں نے ازراہ شرارت اس سے کہا کہ محمدﷺ کے پاس جا کر شکایت کر، وہ ابو جہل سے سفارش کرکے تیرا مال دلوا دیںگے ۔ بچہ بےچارہ ناواقف تھا کہ ابو جہل کا حضورﷺ سے کیا تعلق ہے ؟ اور یہ بدبخت کس غرض کے لیے اسے یہ مشورہ دے رہے ہیں ۔ وہ سیدھا حضورﷺ کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ سے بیان کیا ۔آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن کے گھر تشریف لے گئے ۔ آپ کو دیکھ کر اس نے آپﷺ کا استقبال کیا اور جب آپ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق ادا کر دو تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لا کر اسے دے دیا ۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں کہ دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے ۔ وہ کسی مزید جھڑپ کی امید کر رہے تھے، مگر جب انھوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہو کر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے ۔ اس نے کہا :’’خدا کی قسم! میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا ، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد(ﷺ) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے ،جو میرے اندر گھس جائے گا ،اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی ۔‘‘

Jan 30, 202418:27
آٹزم کیا ہے؟ ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

آٹزم کیا ہے؟ ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

انسان، اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے، ہر انسان اپنی جسمانی ساخت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ جو بچے عمومی اعتبار سے کچھ مختلف پیدا ہوتے ہیں، انھیں معذور یا Special child کہا جاتا ہے ۔معذوری (Disability) کو سماجی سطح پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ معذور بچوں کے تئیں والدین کو شرمندگی کا احساس گہرا ہوتا ہے،تا ہم ایک بات واضح رہے کہ ذہنی معذوری کا نام آٹزم (Autism) ضرور ہے، لیکن اس کا مطلب کوئی ایسی معذوری نہیں جسے معیوب سمجھا جائے ، بلکہ ایک طرح حیاتیاتی تنوع ہے، Neuro developmental diversity ہے، جس کے آگے مختلف درجے ہیں، اور اس کے ساتھ کچھ مزید چیزیں جڑی ہو سکتی ہیں۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اس کی وجوہات کا جاننا اور علاج ممکن نہیں ہے۔

مگر کریں کیا؟

آٹزم یا آٹزم ا سپیکٹرم ڈس آرڈر کی علامات دو تین سال کی عمر سے لےکرعمر کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ علامات کبھی کم اور کبھی اور شدید ،دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔ماہرین نفسیات و ورکنگ ا سپیشل ایجوکیشنسٹس کے مطابق آٹزم کی بعض علامات یہ ہیں:
گوشہ نشینی اختیار کرنا : بعض بچوں میں گوشہ نشینی کی علامت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیےنیم تاریک جگہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔والدین بھی اسے معذور یا ابنارمل سمجھ کر اسی طرح رہنے دیتے ہیں، انھیں اس نظر سے نہیں دیکھتے جس کا ہم مضمون میں ذکر کرنے والے ہیں۔
سماجی تعلقات سےبیزار ہونا یا کترانا : آٹسٹک بچوں میں یہ خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں ۔ سماجی تعلقات یا شور سے انھیںگھبراہٹ ہوتی ہے ۔
نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا: ایسے بچوں کی توجہ آواز کی سمت کبھی کبھی نہیں ہوتی ہے، یہ مگن ہوجاتے ہیں اس لیے جلدی جواب نہیں دے پاتے۔
طبیعت میں جارحیت : یہ کبھی کبھی بہت کم اور کبھی بہت زیادہ بھی ہوتی ہے ۔
بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دلی کا اظہار : بہت سخت بدلہ لیتے ہیں۔ کبھی کبھی مظلومیت کا اظہار کرتے ہیں ،گویا سب انھیںمارتے ہیں، کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا ۔
ہر وقت اضطراب اور خوف: کبھی کبھی یہ علامت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ان جانے خوف کی وجہ سے بہت زیادہ اضطراب کا شکار ہوتے ہیں ۔
انہماک کی کمی : انہماک میں واضح کمی محسوس کی جاسکتی ہے ۔
الفاظ اور جملوں کو بار بار دہرانا : جملے دہرانے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سمجھنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں، جملے بار بار دہراتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہاتھوں کو چڑیا کے پروں کی طرح پھڑپھڑانا ، ہاتھ جھٹکنا یا ایک ہی کام کو بار بار کرنا جیسے ایک آٹسٹک لڑکی مگ سے پانی ڈالتی رہی، بکٹ کے بھر جانے کے بعد بھی اس کے پانی ڈالنے کا عمل دو گھنٹےتک جاری رہ سکتا ہے۔
بات کرتے وقت آنکھیںچرانا: نظریں چراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کسی سے نظرین نہیں ملاتے ہیں ۔
ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا: جلد گھبراجاتے ہیں ۔اپنا مطلب سمجھانے یا خیالات کے اظہار میں دشواری کہیں ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور کہیں کہیں باتیں وہ دہراکر سمجھاتے ہیں ۔ایک جگہ پر سکون سے نہ بیٹھنا، بیٹھے ہوئے اچھلنا کودنا۔
بات کرتے ہوئے آئی کانٹیکٹ نہ دینا۔

Dec 30, 202319:14
گریٹنگ کارڈ تحسین عامر

گریٹنگ کارڈ تحسین عامر

’’ السلام علیکم فجو ! کیا بات ہے ؟ آج سب چپکے چپکے؟‘‘
فرزین نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر خاموشی کا اشارہ کیا۔
اب مما کا امتحان تھا کہ وہ خاموشی کا اشارہ سمجھیں کہ کس سے کیا راز رکھنا ہے۔
انھوں نے اپنے کانوں کو پکڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور فرزین کے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
فرزین نے اپنے کمرے کے دروازے سے ہال میں جھانک کر دیکھا۔دادی ماں کو اذکار میں مصروف دیکھ کر یک گونہ اطمینان پاکر وہ مما سے مخاطب ہوا:’’ آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ آج کیا خاص دن ہے؟‘‘
’’ میرے بیٹے کا ہر دن خاص ہوتا ہے۔‘‘جینیئس مام نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’آپ بھی نہ بس! آج دسمبر ہے۔ Grand ma day.آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا ناں، آپ کو تو پتہ ہی نہیں۔ مس نے کلاس میں پوچھا تو شاداب نے صحیح جواب دیا۔ میں کیا بتاتا ؟ہونقوں کی طرح دیکھتا رہا۔ ہنہ!شاداب کی ممی سارے ڈیز (days) اور ان کو سیلیبریٹ کرنا جانتی ہیں۔‘‘

Dec 30, 202304:31
ملت کا تعلیمی ایجنڈا کیریئر گائڈنس، کیریئر کاؤنسلنگ(قسط:6) سید تنویر احمد (ڈائريکٹر: ہولسٹک ايجوکيشن بورڈ)

ملت کا تعلیمی ایجنڈا کیریئر گائڈنس، کیریئر کاؤنسلنگ(قسط:6) سید تنویر احمد (ڈائريکٹر: ہولسٹک ايجوکيشن بورڈ)

ہمارے ملک کی تعلیمی پالیسی رفتہ رفتہ تعلیم کو سرکاری دائرے سے نکال کر پرائیویٹ دائرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020ءہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یہ تبدیلی جہاں طرزِ تعلیم کو ایڈریس کرتی ہے، وہیں تعلیمی شعبے کو بڑی حد تک حکومت کی ذمہ داری سے آزاد کرتی ہے، یعنی اب تعلیمی میدان میں پرائیویٹ اداروں کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں، غیر ملکی یونیورسٹیوں کو ہمارے ملک میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی اجازت بھی دی جائے گی۔ غالباً حکومت ایسا اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ تعلیم پر ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت اس بوجھ کو اٹھانا نہیں چاہتی۔ حالاں کہ دستور ہند کے مطابق چار سال سے چودہ سال تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام حکومت کے ذمہ ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءپرائیویٹ اداروں پر شکنجہ کسنے کے بجائے انھیں سہولیات فراہم کرنے کی بات کرتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ جہاں کچھ مثبت پہلو لیے ہوئےہے، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں، بالخصوص ان طلبہ کے لیے جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیکنڈری لیول تک کی تعلیم سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکول زیادہ بہتر دے رہے ہیں۔اب سرکاری اسکولوں کی کیفیت بڑی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ غریب خاندان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کررہے ہیں۔ لہٰذا ملت کے سیاسی سربراہوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، سرکاری اسکول قائم کریں۔ جو اسکول پہلے سے موجود ہیں، ان کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اسکولوں کی سطح اوپر اٹھائیں۔ یعنی جو اسکول پرائمری تک ہیں، انھیں میٹرک کی اور جو میٹرک تک ہیں انھیں بارہویں کی سطح تک لے جانے کے بارے میں سوچیں۔ مسلم علاقوں میں قائم اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ این جی اوز اور اہل خیر حضرات کا تعاون حاصل کرکے آگے بڑھیں۔( اس پر قدرے تفصیل سے ہم آگے گفتگو کریں گے)

Dec 30, 202317:40
درس حدیث ناکردہ عمل کو اپنے نام کرنا :منافقین کی صفت خنساء سبحانی

درس حدیث ناکردہ عمل کو اپنے نام کرنا :منافقین کی صفت خنساء سبحانی

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُنَافِقِينَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا إِذَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ تَخَلَّفُوا عَنْهُ وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَنَزَلَتْ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنْ الْعَذَابِ ( صحيح مسلم)

(حضرت ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں کچھ منافقین ایسے تھے کہ جب نبی ﷺ کسی جنگ کے لیےتشریف لے جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں اپنے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے اور جب نبی ﷺ واپس تشریف لاتے ،تو آپ کے سامنے عذر بیان کرتے اور قسمیں کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کاموں پر ان کی تعریف کریں ،جو انھوں نے نہیں کیے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’ ان لوگو ںکے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے، جو انھوں نے نہیں کیا ان کے متعلق یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچنے والے مقام پر ہوں گے ۔‘‘ (سورة آل عمران : 188)


Dec 30, 202307:55
درس قرآن ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

درس قرآن ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۖ وَلِلنِّسَآءِنَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ۞ (النساءآیت:7)

(مردوں کے لیےاس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور حصہ ،اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔)

یہ سورہ نساء کی آیت نمبر7 ہے ۔ سورہ نساء وہ سورہ ہے جس میں عورتوں،یتیموں، خاندانی و معاشرتی زندگی، شادی بیاہ، رشتے ناطے، طلاق و خلع ، وراثت اور صلہ رحمی وغیرہ سے متعلق ضح احکامات ملتے ہیں۔ سورہ کی تمہید میں اللہ تعا لی ٰ تقوی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے ۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور اس کائنات کا خالق و مالک اور رب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کسی کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کی مخلوق کو ظلم و تعدی کا شکار بنائے اور ان کے حقوق کو ضبط کرے۔ تمہید میں دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم و حوا کا گھرانہ ہے ۔ اس اعتبار سے حقوق کے حصول میں سب برابر ہیں۔چونکہ حوا علیہا السلام، آدم علیہ السلام کی ہی جنس سے بنی ہیں اور وہ نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اس لحاظ سے عورت شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے ۔ اس کو حقیر و ذلیل سمجھ کر نہ تو حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ کمزور خیال کرکے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے سماج کے سب سے کمزور طبقے یعنی یتیموں کے حقوق کی تفصیلات بیان کیں ۔ یتامیٰ کے حقوق کے تحفظ کے بعد عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا ذکر شروع ہورہا ہے ،جس میں سب سے پہلے میراث میں ان کے حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے۔

Dec 30, 202311:07
بچوں کی تربیت پر صلہ رحمی کے اثرات ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

بچوں کی تربیت پر صلہ رحمی کے اثرات ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

مہمان خانے میں دوتین خواتین ملاقات کے لیے آئیں۔ ملاقات کی نوعیت کاؤنسلنگ کی تھی،وہ اپنی بہو کی کاؤنسلنگ کےلیے سفارش لے کر آئی تھیں کہ آپ فری وقت بتائیں تاکہ ہم اپنی بہو کوکاؤنسلنگ کے لیے لاسکیں۔اسی اثنا میں دو مزید ملاقاتی خواتین آگئیں، میزبان خاتون تواضع کا انتظام کرنے چلی گئیں، دونوں اجنبیوں کے درمیان گفتگو ہوئی ۔راہ ورسم اور علیک سلیک کے بعد کہیں نہ کہیں سے خواتین نسبتیں جوڑ لیتی ہیں ،بس رشتہ جوڑ کر ایک دوسرے کے سسرالیوں کی برائیاں شروع کر چکی تھیں۔ بعد میں آنے والی خواتین کے ساتھ دو بچیاں تھیں ،وہ اپنی امی کی زبان سے اپنی دادی اور چاچا تایا کی برائیاں سن رہی تھیں ،میزبان خاتون نے بچیوں کو باہر لان میں کھیلنے کا کہہ کر بھیج دیا ۔
یہ ایک مہمان خانے کا قصہ نہیں ہے ۔یہ بچوں کو کاؤنسلنگ کے لیے لانے والی اکثر خواتین کی کہانی ہے۔ جہاں دو خواتین آپس میں باتیں کریں، اپنے سسرالی رشتوں کو برا بھلا کہنا فرض سمجھتی ہیں ۔
معصوم بچے جب یہ سنتے ہیں کہ ان کے چچا ،تایا، دادی، پھوپھی سب برے لوگ ہیں، انھیںاپنا خاندان و قرابت دار برے نظر آتے ہیں ۔اپنے قرابت داروں سے متعلق کوئی اچھا تاثر بچوں کے نزدیک نہیں بن پاتا ،وہ اپنے اسکول کے ہم جولیوں کے سامنے بھی اپنے چاچا زاد، پھوپھی زاد بہن بھائیوں سے متعلق اچھی رائے نہیں دے پاتے ہیں ۔
سسرالی رشتوں سے متعلق شکایت رکھنے والی خواتین کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی قسمت سے پورے گھر میں ان کے شوہر ہی کسی قدر بہتر ہوتے ہیں۔کہیں کہیں تو وہ بھی نہیں ہوتے ۔وہ زندگی میں لوہے کے چنے چبا رہی ہوتی ہیں ۔
اس طرح کی گفتگو سے کس کا نقصان ہوتا ہے؟ آپ جانتی ہیں ؟
سب سے بڑا نقصان معصوم بچوں کاہوتا ہے، جن میں عدم تحفظ کا احساس پروان چڑھتا ہے ۔وہ بچپن سے ہی اپنی امی کی زبان سے دشمن اور برے رشتے دار جیسے الفاظ سے متعارف ہوتے ہیں ۔
احساس تحفظ انسان کی مثبت سوچ سے پروان چڑھتا ہے ۔جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کی ذات تمام احباب کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ہے تو آپ کا اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بھی یہ احساس ہوکہ چچا ،تایا،دادی، پھوپھی سب ہمیں چاہتے اور پسند کرتے ہیں۔ اس سےبچے کا سیلف سیکورٹی لیول بڑھنا شروع ہوجاتا ہے ۔وہ اپنے خاندان کے درمیان سماجی مطابقت کی مہارت سیکھتے ہیں ۔
رشتے اور قرابت داروں کی قربت سے ہماری اپنی ذات اور بچوں کا فائدہ ہے۔ بچوں کی تربیت کےلیے قرابت دار بڑی نعمت ہیں ۔اسی لیے قرآن مجید نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ رشتے داروں کی برائی کو محسوس کرتے ہوئے خاندان کو کاٹنے کی کوشش دراصل اپنے بچوں کے حق میں نقصان دہ ہے اور اللہ رب العالمین نے بھی اس سے روکا ہے ۔

Nov 30, 202312:10
مسجد تحسین عامر

مسجد تحسین عامر

عصر کی نماز ادا کرکے مما جائے نماز پر بیٹھی دعا کرہی رہی تھیں کہ ڈور بیل کی مسلسل ڈنگ ڈانگ ڈنگ ڈانگ سے گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ نہ جانے کون بے صبرا بندہ کال بیل پر ہاتھ دھرے کھڑا ہے!‘‘ تیزی سے جا کر دروازہ کھولا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی ۔ فرزین زار و قطار روتا ہوا کھڑا تھا۔
’’ اللہ خیر! کیا ہوا میرے بچے؟‘‘وہ فرزین کو سینے سے لگا کر اندر لے آئیں۔صوفے پر بٹھایا، رومال سے آنسو صاف کیے اور پانی پلایا۔مما نے فرزین کا چہرہ گیلے ہاتھوں سے صاف کیا، پھر بھی اس کی ہچکیاں ہی نہیں رک رہی تھیں۔مما نے اس کی ہتھیلیاں اور گھٹنے چیک کیے، کہیں چوٹ یا گرنے کے نشان بھی تو موجود نہیں تھے۔
’’فرزین بیٹا!ابھی تو مسجد گئے تھے آپ، کیا ہوا؟ ذرا بتائیے مجھے!‘‘
’’میرا کان مروڑا ہے مولانا نے۔ بہت ڈانٹا ہے سبھی بچوں کو ، اور مسجد میں آنے سے منع کیا ہے۔ اوںاوں…اب میں نہیں جاؤں گا مسجد۔‘‘ فرزین نے پھر رونا شروع کردیا۔اتنے میں دادی اماں بھی نماز سے فارغ ہوکر تسبیح لیے وہیں آگئیں۔
’’ دلہن ! میں پوچھتی ہوں کیوں چھوٹے بچے کو اکیلے مسجد بھیجتی ہو؟‘‘ وہ فرزین کی دوسری جانب بیٹھ گئیں۔
’’میرا راجہ !ابوکے آفس سےآنے کے بعد ان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لیے مسجد جانا۔ عصر کی نماز گھر میں ادا کرنا۔ ‘‘
بس ۔فرزین کو تو یہی چاہیے تھا۔جلدی سے گھر میں عصر کی نماز ادا کرکے دوستوں کے ساتھ گراؤنڈ میں کھیلنا۔جماعت کے انتظار میں اس کے کھیلنے کا وقت جو کم ہوجاتا تھا۔عصر سے مغرب، اسی وقت تو اسے گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت تھی۔
فرزین کی جینیئس مام نے غور سے فرزین کا چہرہ دیکھا۔دادی اماں کے سینے سے لگ کراپنے درد کو بھلا کر وہ نارمل ہورہا تھا۔
مما نے اب یہاں سے اٹھنا مناسب سمجھا اور کچن میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ ایسا تمھارے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ مولانا صاحب نے یہی درگت بنائی تھی تمھاری۔‘‘ دادی ماں نے پوتے کا کان سہلاتے ہوئےپیار کیا۔

Nov 30, 202305:34
ملت کا تعلیمی ایجنڈا کیریئر گائڈنس، کیریئر کاؤنسلنگ(قسط :5) سید تنویر احمد

ملت کا تعلیمی ایجنڈا کیریئر گائڈنس، کیریئر کاؤنسلنگ(قسط :5) سید تنویر احمد

اکثر والدین اور طلبہ تعلیم کے میدان میں موجود مواقع سے ناواقف ہیں۔ نہ تو والدین بچے کی ذہنی صلاحیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی بچہ اپنا تجزیہ کرتا ہے کہ وہ تعلیم کے کس میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینیئرکے خول سے باہر نکل کر تعلیم کے وسیع مواقع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ جب کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچے کے اندر کس علم کے حصول کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور معاشی حصول کے لیے کس ذریعے کو ان کا مقدر بنایا ہے۔ وہ ڈاکٹری یا انجینیئرنگ میں بچے کا مستقبل تلاش کررہے ہوتے ہیں، جب کہ ممکن ہے کہ اللہ نے اس کی فطرت میں کسی اور میدان میں کمالات دکھانے اور بلندی کو چھونے کا ہنر رکھا ہو۔ لہٰذا، مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت بچے کی ذہنی صلاحیت اور اس کی استعداد و رجحان کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ آج بے شمار ایسے طلبہ ہیں جو دیگر میدانوں میں اپنی خداداد قدرتی صلاحیتوں کا جوہر دکھا کر کسی ڈاکٹر یا انجینیئر سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں، کیوں کہ انھوں نے وہ میدان چُنا ہے جو ان کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔
کیریئر کاؤنسلنگ یعنی مختلف کورسوں کا تعارف اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے والدین اور طلبہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کا ایک بڑا طبقہ میڈیکل، انجینیئرنگ اور اب یو پی ایس سی امتحانات کو ہی تعلیم کا حاصل سمجھتا ہے اور اسی کو ہدف بنائے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اجتماعی و انفرادی طور پر مندرجہ ذیل کام کرنے کی ضرورت ہے:
وہ تعلیمی ادارے جہاں ملت کے طلبہ زیر تعلیم ہیں، کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگراموں کا آغاز مختلف مضامین اور کورسوں کے تعارف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بالخصوص ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے منعقد کیے جائیں۔ تعارف کے بعد طلبہ کا نفسیاتی (Psychometric) ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ٹیسٹ طلبہ کے تعلیمی رجحان، دل چسپیوں، فطری لگاؤ اور ذہنی رجحان کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے بعد ماہرین طالب علم کی سماجی، معاشی کیفیات اور دیگر عناصر کا جائزہ لے کر اس سے گفتگو کے بعد کورسوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔کسی ایک کورس کے بجائے طالب علم کے سامنے دو تین کورسوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ طالب علم کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کورس کا انتخاب کرے۔

Nov 29, 202310:53
درس حدیث عائشہ آفریدی

درس حدیث عائشہ آفریدی

وحدثنا قتيبة بن سعيد ،حدثنا ليث،عن ابن الهاد ، عن عمر بن علي بن حسين ،عن سعيد ابن مرجانة،عن ابي هريره،قال:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اعتق رقبة مؤمنة، اعتق الله بكل عضو ء منه عضؤا من النار ،حتى يعتيق فرجه بفرجه.(صحیح مسلم : 3797 )

(عمر بن ( زین العابدین ) علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب) نے سعید بن مرجانہ سے اور اُنھوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ،اُنھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے کسی مومن گردن کو آزاد کیا ،اللّہ تعالیٰ اس کےہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کا وہی عضو آگ سے آزاد کرے گا ،حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کے بدلے اُسکی شرمگاہ کو بھی آزاد کردےگا ۔)

وحدثنا قتيبة بن سعيد ،حدثنا ليث،عن ابن الهاد ، عن عمر بن علي بن حسين ،عن سعيد ابن مرجانة،عن ابي هريره،قال:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اعتق رقبة مؤمنة، اعتق الله بكل عضو ء منه عضؤا من النار ،حتى يعتيق فرجه بفرجه.(صحیح مسلم : 3797 )

(عمر بن ( زین العابدین ) علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب) نے سعید بن مرجانہ سے اور اُنھوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ،اُنھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے کسی مومن گردن کو آزاد کیا ،اللّہ تعالیٰ اس کےہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کا وہی عضو آگ سے آزاد کرے گا ،حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کے بدلے اُسکی شرمگاہ کو بھی آزاد کردےگا ۔)
مومن گردن کو آزاد کرنے سے مراد یہاں غلاموں کے آزاد کرنے سے ہے۔غلام دراصل وہ شخص ہوتا ہے جس سے اپنے مفاد کے لیے اس کے جسمانی و سماجی اختیارات چھین لیے جاتے ہیں اور پھر وہ معاشرے کا ایک کمزور ترین انسان ہوجاتا ہے، جس پر اس کامالک چاہے جانوروں جیسا سلوک کرےاور وہ اپنے حق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا پا تا ہے ۔
اس طرح سے لوگوں کو غلام بنانے کا رواج ہر زمانے میں ہر قوم میں پا یا گیا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف جنگی قیدیوں کے ساتھ خاص تھا ،بلکہ کبھی کبھی طاقتور قبیلہ اپنے سے کمزور قبیلہ کو ذاتی مفاد اور دد عیش کے لیے غلام بنالیتا تھا۔ایک دفعہ جب کسی کی گردن میں غلامی کا طوق پڑگیا تو وہ کبھی اس سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا ۔اگر کوئی خود سے آزاد ہو نے کی کوشش بھی کرتا تو اُسے اتنے سخت قوانین اور کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا کہ وہ اسی میں دب کر رہ جاتا ۔

Nov 29, 202307:13
درس قرآن ماریہ سعید اختر فلاحی

درس قرآن ماریہ سعید اختر فلاحی

شہید کی دو قسمیں ہیں، حقیقی اور حکمی ۔حقیقی شہید وہ ہے جو اللہ کے راستے میں لڑتے لڑتے شہید ہو جائے یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطےکہ وہ بغیر علاج و معالجہ اور وصیت وغیرہ کے بغیر موقع پر دم توڑ جائے ۔ان پر شہید کے احکامات نافذ ہوتے ہیں ۔حکمی شہید وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ۔ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے احکام جاری ہوں گے۔مذکورہ بالا آیت کا تعلق حقیقی شہید سے ہے ۔
حقیقی شہداء کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑیں ،اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لیےلڑیں ۔اس میں کوئی دوسرا نعرہ ، کوئی دوسرا مقصد اور کوئی دوسرا نظریہ شریک نہ ہو ۔صرف اس سچائی کے لیے لڑ رہے ہوں جسے اللہ نے نازل فرمایا ۔صرف اس نظام زندگی کے لیے جو اس نے وضع فرمایا۔اسلام نے مجاہد کی پر خلوص نیت پر بہت زور دیا ہے ۔
ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم سےایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو نمائشِ شجاعت کے لیے یا اظہارِحمیت کے لیےیا ریاء کے لیے لڑتا ہے ۔ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے؟ رسو ل محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو ۔(مالک، بخاری، مسلم)

Nov 29, 202307:24
بچوں میں ویڈیو گیم کھیلنے کا بڑھتاہوارجحان ڈاکٹرخان مبشرہ فردوس

بچوں میں ویڈیو گیم کھیلنے کا بڑھتاہوارجحان ڈاکٹرخان مبشرہ فردوس

ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کو بڑے تو کیا بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل نظر آتا ہے۔ پہلے گھروں میں داخل ہوں تو بچوں کو تہذیب کے ساتھ مہمان کا استقبال کرنے اور انھیں پانی پیش کرنے کی تربیت دی جاتی تھی ۔بچوں سے پوچھے گئے سوالات اور ان سے گفتگو کرنا مہمان فرض سمجھتے تھے اور اسی سے گھر کے سکون اورہشاش بشاش فیملی کا اندازہ لگایا جاتا تھا ،اسی لیے بچوں کو مہمان کے سامنے آنے ،ان کااستقبال کرنے اورانھیںسلام کرنے کاسلیقہ سکھایا جاتا تھا ۔اس سے یہ بھی فائدہ تھا کہ بچے بہت توجہ سے مہمان کو دیکھتے اور خود بھی نشست و برخاست کا ڈھنگ سیکھتے تھے ۔
یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں ۔بچوں کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے، والدین لاکھ آوازیں دیں، بچے طوعاً و کرہاً آتے ہیں اور مہمان کو دیکھے بغیر سلام ٹھونک کر نکل لیتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی عجلت میں ہیں ۔یہ کہانی ایک دو گھر کی نہیں ،گھر گھر کی ہے ۔کیا امیر کیا غریب کیا متوسط؟ بچوں کا موبائل کے تئیں اوبسپشن ہے روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔
ماہرین کے نزدیک بچے سات سال کی عمر تک اپنے ارتقائی اور انتہائی نازک دور سے گزرتے ہیں، اس دوران ان کے حسی اعضا ءپرورش پاتے ہیں ،وہ باریک بینی سے چیزوں کو دیکھتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان پر سوچتے ہیں۔ ہر بچے کے دیکھنے سمجھنے، معلومات کو جوڑنے، تخلیقی اعتبار سے غور وفکر کرنےکا زاویہ مختلف ہوتا ہے ،اس کا انحصار بچے میں ودیعت کردہ صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ جیسے اگر بچہ آوڈیو ویژول(Audio visual)ہو تو وہ سننے کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ کر باتوں کو یاداشت کا حصہ بنتا ہے۔ اس کی عمر ، تجربہ ،
ماحول اور اس میں ودیعت کردہ صلاحیت کے اعتبار سے طے ہوتا ہےکہ وہ کتنی تیزی سے اس کو سمجھے گا؟(Way of persiverence) چیزوں کو سمجھنے دیکھنے کی صلاحیت ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے ۔اسی طرح قوت شامہ ، محسوسات ، اور طبعی ارتقاء اس عمر میں بہت تیزی کے ساتھ ہوتی ہے ۔

Nov 09, 202311:01
معصوم قیدی نورالاسلام رحمانی

معصوم قیدی نورالاسلام رحمانی

بہت دنوں کے بعد آج طویل سفر سے حامد صاحب گھر لوٹے ہیں،گھر میں خوشی کا ماحول ہے۔ محمد زید اور ہادیہ نور بھی بہت خوش ہیں۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر امی نے کھانے کا دسترخوان لگایا۔ محمد زید اور ہادیہ نور نے بھی اپنے ابو کے ساتھ کھانا کھایا۔کھانے سے فارغ ہوکر ہادیہ نور نے ابو سے کہانی سننے کی فرمائش کر ڈالی۔ بچوں کو ابو کی زبانی کہانی سنے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ محمد زید بھی کہانی سنانےکی ضد کرنے لگا۔ ابو نے ایک مرتبہ بچوں کے معصوم چہروں پر نظر ڈالی اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:
’’بچو!ہم نے ابھی کھانا کھایا ہے۔پہلے ہم سب مل کر چہل قدمی کرلیں، اس کے بعد آپ لوگوں کو چڑیا اور اس کے معصوم بچوں کی سچی کہانی سنائی جائے گی۔‘‘یہ سنتے ہی دونوں بہن بھائی خوشی سے جھوم اٹھے۔چہل قدمی کے بعد جیسے ہی حامد صاحب کمرے میں داخل ہوئےتو دیکھا بچوں کی امی پہلے سے ہی کہانی سننے کے لیے منتظر بیٹھی تھیں۔
حامد صاحب نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ لگتا ہے آج آپ بھی کہانی سننے کے لیے بےتاب ہیں۔ محمد زید اور ہادیہ نور نے شور مچانا شروع کردیا۔
’’ابو جان! ابو جان! کہانی سنائیں… کہانی سنائیں۔‘‘
امی نے دونوں بہن بھائی کو انگلی کے اشارے سے خاموش رہنےکو کہا۔دونوں بچے امی کے ایک ہی اشارے پر خاموش ہوگئے۔
کمرے میں کچھ دیر تک سنّاٹا سا چھایا رہا ۔حامد صاحب نے کہانی کچھ ا س طرح شروع کی:
اب سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ملک عرب کے ریگستانی راستوں سے ہوتا ہوا مسافروں کا ایک قافلہ اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب لوگ گھوڑے، اونٹ اور خچر وغیرہ پر دور دراز کے سفر طے کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں آج کی طرح ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں اور بس، موٹر گاڑیاں وغیرہ نہیں ہوا کرتی تھیں۔
بچو!اس قافلے کو چلتے ہوئے کئی روز گزر چکے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا، دھوپ کی تیزی کی وجہ سے گرمی بھی خوب ہورہی تھی۔ قافلے والوں کے گھوڑے اور اونٹ تھک چکے تھے اور ان پر سوار مسافروں پر بھی تھکن کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے۔ قافلے کے تمام مسافر بہت ہی نیک اور پیارے انسان تھے، اس لیے تمام مسافر اپنی سواریوں پر بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت اور اللّٰه کا ذکر کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ اس قافلے کے امیر بہت ہی باوقار، نرم دل اور بلند مرتبہ شخصيت کے حامل تھے۔ امیرِ قافلہ نےجب اپنے ساتھیوں اور جانوروں پر تھکاوٹ اور سستی کے آثار محسوس کیےتو قافلے کو پڑاؤ کاحکم دے دیا۔

Nov 09, 202312:12
ملت کا تعلیمی ایجنڈا:چند تجاویز(قسط: 4) سید تنویر احمد (ڈائريکٹر: ہولسٹک ايجوکيشن بورڈ)

ملت کا تعلیمی ایجنڈا:چند تجاویز(قسط: 4) سید تنویر احمد (ڈائريکٹر: ہولسٹک ايجوکيشن بورڈ)

’این آئی او ایس‘میں ایک اور سہولت’مطالبے پر امتحان‘کی ہے۔ یعنی میٹرک اور بارہویں کے سالانہ امتحانات میں پرچہ لکھنے کے بعد اگر کسی طالب علم کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ وہ کسی مضمون میں فیل ہوسکتا ہے یا اسے کم نمبرات مل سکتے ہیں تو پھر ایک مہینے بعد وہ ’مطالبے پر امتحان‘دے سکتا ہے۔’مطالبے پر امتحان‘دینے کا عمل ایک مضمون کے لیے بھی ہوسکتا ہے یا کئی مضامین کے لیے بھی۔ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کسی اور بورڈ میں فراہم نہیں کی جاتی۔ اگر ایک طالب علم تین مضامین میں کام یاب ہوجاتا ہے اور اس کے دو مضمون رہ جاتے ہیں، جن میں وہ پاس نہیں ہوا ہے تو نتائج آنے کے ایک ماہ بعد وہ ایک مضمون کا امتحان دے سکتا ہے یا دو مہینے کے بعد اس مضمون کا امتحان دوبارہ دے سکتا ہے اور جس مضمون کا امتحان رہ گیا، تین ماہ کے بعد اچھی تیاری کے ساتھ اس کا امتحان دے سکتا ہے۔ اس طرح طلبہ مختلف وقفوں میں تمام مضامین کا امتحان دے کر اپنا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

سال میں دو بار داخلے کا موقع

اس بورڈ میں ہر سال دو بار داخلے کا موقع آتا ہے۔ طلبہ اپنی سہولت اور حالات کے مطابق داخلہ لے سکتے ہیں۔ پہلا موقع 11 مارچ تا 31 جولائی کا ہے۔ اس کا امتحان اکتوبر، نومبر میں ہوتا ہے۔ دوسرا موقع 15 ستمبر تا 31 جنوری ہے۔ اس کا امتحان اپریل، مئی میں ہوتا ہے۔اگر کوئی طالب علم دونوں داخلے کی تاریخوں میں فارم نہیں پُر کرسکا تو لیٹ فیس کے ساتھ بھی فارم پر کرنے کی ایک مدت دی جاتی ہے۔

’این آئی او ایس‘ کے مراکز کا قیام کیسے؟

’این آئی او ایس‘سے تعلیم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ طلبہ اپنے طور پر’این آئی او ایس‘سے رجسٹریشن کراسکتے ہیں۔ انھیں ان کے مقام سے قریب واقع’این آئی او ایس‘کے سینٹر سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ وہاں طالب علم کو ہفتہ میں ایک بار جانا ہوتا ہے۔ اگر پریکٹیکل والامضمون ہے تو پریکٹیکل کرنے ہوتے ہیں۔ ورنہ وہاں کنٹیکٹ کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے طلبہ اپنے مدرسے سے قریب والے سینٹر کو منتخب کرسکتے ہیں اور وہاں امتحان دے سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ’این آئی او ایس‘دینی مدارس کو بھی اب اپنا اسٹڈی سینٹر بنا رہا ہے۔ پہلے یہ بات قدرے مشکل تھی لیکن اب یہ آسان ہوچکی ہے۔ پہلے ’این آئی او ایس‘ اس اسکول یا مدرسے کو مرکز بناتا تھا جو’این آئی او ایس‘سے یا پھراسٹیٹ بورڈ یا مدرسہ بورڈ سے ملحق ہوتا تھا۔ لیکن اب اگر کوئی مدرسہ’اسٹیٹ بورڈ‘یا ’مدرسہ بورڈ ‘سے ملحق نہیں ہے لیکن اس کے پاس اتنی عمارت دستیاب ہے جہاں کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکتاہے اور اس میں مدرسین کی وہ تعداد موجود ہے جو’این آئی او ایس‘کے مضامین کو پڑھا سکتے ہیں تو اسے سینٹر دیاجاسکتا ہے۔


Nov 09, 202325:54
شہادت حق مصنف: مولانا سيد ابو الاعلي مودوديؒ ، تبصرہ نگار: ذکیہ صالحاتی بنت عبدالباری مومن

شہادت حق مصنف: مولانا سيد ابو الاعلي مودوديؒ ، تبصرہ نگار: ذکیہ صالحاتی بنت عبدالباری مومن

ادائیگی شہادت کا طریقہ

 شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے مولانا بیان کرتے ہیں کہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے، نمبر ایک قولی شہادت نمبر دو عملی شہادت۔ قولی شہادت یعنی ہم زبان اور قلم کے ذریعے اس حق کو واضح کریں ،جو انبیاء کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ سمجھانے کے جتنےطریقے ہیں،دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے جتنے بھی ذرائع ہیں؛ سب سے کام لے کر ہم دنیا کو دین کی تعلیم سے روشناس کریں، اور حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا دلائل سے ثابت کریں۔ عملی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ صرف ہماری زبان ہی لا الہ الا اللہ کا ورد نہ کرےبلکہ ہمارا عمل بھی اس کی گواہی دے،ہمارے اخلاق اور معاملات، ہمارا معاشرہ، رہن سہن، تہذیب و تمدن، غرض ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ اوروں کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہو۔ یہ عملی شہادت جب قولی شہادت سے مل جاتی ہے تب ہی وہ ذمہ داری ادا ہوتی ہے جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس قولی اور عملی شہادت کو ادا کرنے کی بجائے ہم حق کو چھپانے اور جھوٹ کی گواہی دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جیسا کہ ہم سے پہلے یہودیوں نے کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اج ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور دنیا میں بطور عذاب ذلت اور رسوائی جھیل رہے ہیں۔

Nov 09, 202305:56
مستقبل کے معلم انسان یا روبوٹ؟ خالد پرواز

مستقبل کے معلم انسان یا روبوٹ؟ خالد پرواز

یہ چونکا دینے والا بیان تھا برطانیہ کی محقق اور ماہر تعلیم انتھونی سلڈون کا، جنھوں نے یہ بیان ستمبر 2023 ءمیں ایک تعلیمی کانفرنس کے دوران دیا، لیکن وہ پہلے ماہر نہیں ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ خود کار مشینیں جو مصنوعی ذہانت سے لیس ہوں ،دوسرے کاموں کی طرح انسانی اساتذہ کی جگہ لے لیں گی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ روبوٹک ٹیچرس حقیقی معنوں میں انسانی اساتذہ کا بدل ہو سکتی ہیں؟
ٹری ہیک (Terry Heik) جو ٹیچ تھاٹ ادارے کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں تعلیم ایک غیر وراثتی انسانی عمل ہے، لیکن اسی دوران مصنوعی ذہانت اور تعلیمی میدان میں استعمال سے متعلق ریسرچ تیزی سے جاری ہے۔ کچھ ممالک میں AI Teachers یا روبوٹک ٹیچرزکا تجربہ بھی شروع ہو چکا ہے ۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں آئی آئی ٹی ممبئی کے سینٹرل اسکول میں ایک روبوٹک ٹیچر جن کا نام میڈم شالو رکھا گیا ہے، پڑھانے کا کام بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ بنگلور میں انڈوس انٹرنیشنل اسکول میں Eagle 2.0 نامی ربوٹک ٹیچر بچوں کو پڑھارہی ہیں۔
اب یہ سوال اور اہم ہوتا جا رہا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج پر،انٹرنیٹ، گوگل اور مصنوعی ذہانت کے دور میں کیا استاد کی ضرورت نہیں رہی؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے جس طرح اپنے ملازمین کو Layoff رخصت کررہی ہیں ،کیا یونیورسٹیز، کالج اور اسکول بھی اساتذہ کو رخصت کرینگے؟معلومات کے دھماکے، حصول علم کی سہولیات، فاصلاتی اور آن لائین ایجوکیشن کی گہما گہمی میں کیا ہم اساتذہ کے بغیر بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟
جس طرح تار، ٹیلیفون اور فوٹو کیمرے کا وجود نہیں رہا اسی طرح کیا اساتذہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے ؟ اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں دیا جاسکتا۔جب تک تعلیمی نظام ، معلومات کو اکٹھا کرنے اور امتحان میں اگلنے کو ہی تعلیم سمجھتا رہے گا ، تب تک ایسا ممکن ہے کہ یہ کام اساتذہ کے بغیر بھی مشینوں کے ذریعے ہو جائےگا ۔لیکن تعلیم کو معلومات کی منتقلی کی بجائے شخصیت سازی کو پیش نظر رکھا جائے تو اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ یقیناً مشینوں سے انسان نہیں بنائے جاسکتے،ان کی اخلاقی تربیت ، جذباتی نشونما اور ذہنی ارتقاء کے لیے ایک ماہر استاد کی ضرورت پڑتی ہےم جو ان کی نفسیات کو پڑھ کر ، ان کی دلچسپیوں کو جان کر ان کی سطح پر اتر کر تعلیم کے زیور سے ان کو آراستہ کرسکے،ان کی شخصیت کو نکھار سکے اور خامیوں کو دور کرسکے۔انسانی شخصیت کوئی سافٹ وئیر سے تعمیر شدہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ میموری کارڈ کی طرح یادداشت کو جمع کرنےکی جگہ ہے، بلکہ اس میں بے شمار ذہنی ، جسمانی ، روحانی ، قلبی اور نفسیاتی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کو پہچاننے اور پروان چڑھانے کا کام ایک استاد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔خود انسان کو ترقی کے اس مقام تک پہنچا نے میں اساتذہ کا اہم رول رہا ہے۔

Nov 09, 202306:50
درس حدیث خنساء سبحانی

درس حدیث خنساء سبحانی

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَسُبُّ ابْنُ آدَمَ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ(صحیح مسلم: 5862)

(ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابوسلمہ بن عبدالرحمن ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اللہ عز وجل فرماتے ہیںکہ ابن آدم زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں ،دن اور رات میرے قبضہ میں ہیں۔)

قال اللہ عزوجل یؤذینی ابن آدم یسب الدھر ، وأنا الدھر بیدی الأمر أقلب اللیل و النھار (صحیح البخاری : 4826)

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے ،حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں ۔)
زمانۂ جاہلیت میں جب مشرکین عرب کو کوئی دکھ، غم ، شدت و بلا پہنچتی تو وہ کہتے :’’یا خیبۃ الدھر!‘‘ (ہائے زمانے کی بربادی !) وہ ان کاموں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے، حالانکہ ان افعال کا خالق اللہ جل جلالہ ہے تو گویا انھوں نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی۔

Nov 09, 202306:49
درس قرآن ام نوفل فلاحی

درس قرآن ام نوفل فلاحی

اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا أیہا الذین آمنو قوا أنفسکم وَ اَہْلِیْکُمْ نَاراًوَّ قُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ ما یؤمَرُون (التحریم: 6)

(اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچائو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے، اللہ ان کو جو حکم دے گا اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا ۔)


Nov 09, 202306:25
ساتویں سالگرہ تحسین عامر

ساتویں سالگرہ تحسین عامر

آج فرزین اسکول سے لوٹا تو خلاف معمول کچھ خاموش تھا ۔ورنہ اسکول سے واپسی پر گھر کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ہی وہ اپنی مما کو آوازیں لگانا شروع کر دیتا ۔’
’مما !السلام علیکم ۔مما آپ کہاں ہیں ؟مما آپ کا راجا بیٹا اسکول سے واپس آگیا ہے ۔‘‘مما سے ملنے کی بے قراری کو دیکھ کر اس کی مما بھی اس کے استقبال کے لیے کچھ سیڑھیاں اتر کر نیچے آجاتیں، پھر اس کے کاندھے سے بیگ نکالتیں اور تقریباً گود میں اٹھائے اوپر لاتیں اسے پیار کرتیں، اور فرزین اپنے اسکول کی روداد سنانے لگ جاتا ۔اپنی مما کی بانہوں میں جھول جاتا ۔دادی اماں دونوں کو مسکرا کر دیکھتیں اور مصنوعی خفگی سے کہتیں:’’بہو رانیً بچے کو کچھ کھلاؤ گی پلاؤ گی یا خالی پیلی یوں ہی لاڈ کرتی رہو گی؟‘‘
اور فرزین کی مما ہنس کر فرزین کے پیٹ میں گدگدی کر کے کہتیں:’’ہاں امی! اس کی باتیں ختم ہو جائیں ،پھر پیٹ میں کچھ جگہ بن جائے تو کھلاؤں گی۔‘‘
جب تک اپنی مما کو وہ اپنے دوستوں سے کی گئی باتیں، کھیل اور مس کا پڑھایا ہوا سبق سنا نہ دیتا، فرزین کو قرار نہیں آتا تھا ،لیکن آج وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر بھی آگیا ۔
مما کو حیرانی ہوئی کہ کیا بات ہے!؟مما کے سلام کرنے پر بھی اس نے دھیمی آواز سے’’وعلیکم السلام‘‘ کہا اور صوفے پر لیٹ گیا ۔مما بھی اس کے سر کو سہلاتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں، اور آہستہ سے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا، لیکن یہ کیا؟ فرزین نے مما کی گود سے پھسل کر اپنا سر صوفے پر کر لیا ۔اب مما سمجھ گئیں کہ کچھ تو گڑبڑ ہے، لیکن کیوں؟ وہ سمجھ نہیں سکیں ۔آخر انھوں نے اپنے لاڈلے سے پوچھ ہی لیا۔
’’ لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں،ذرا وجہ بھی بتا دیجیےپلیز !‘‘
’’مجھے بہت نیند آرہی ہے۔ سو نے دیجیے!‘‘ فرزین نے جواب دیا ۔
’’اچھا !‘‘فرزین کی جینیس مام کا شک یقین میں بدل گیا، انھوں نے روم کی لائٹس بند کیں اور باہر نکلیں۔
باہر فرزین کی بڑی بہن پودوں کو پانی دے رہی تھی، مما نے آواز دی۔’’مریم!پودوں کو پانی میں دے دوں گی ۔آپ میرا ایک کام کر دیجیے۔فرزین مجھ سے ناراض ہے ۔آپ پتہ لگائیے کہ وہ مجھ سے کیوں ناراض ہے؟‘‘ انھوں نے مریم سے پائپ لے لیا ۔مریم کو ہنسی آئی ۔’’اچھا تو مجھے Investigation کرنا ہے ۔‘‘

Oct 02, 202305:17
ہمہ جہت ذہنی نشوونما پیرنٹنگ کا اصل محرک علیزے نجف

ہمہ جہت ذہنی نشوونما پیرنٹنگ کا اصل محرک علیزے نجف

 بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ان کی ذہانت اور ذہنی نشوونما کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے، بچے کی اصل شخصیت اس سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ہر بچہ کسی نہ کسی مخصوص صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے یہ پوٹینشیل کی صورت اس کے اندر موجود ہوتا ہے، اس پوٹینشیل نامی ذہانت کو بروئے کار لانا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے،کیونکہ بچے کا ذہن ناپختہ ہوتا ہے، اس لیےوہ اس کے استعمال کی اہمیت اور اس کے طریقوں سے متعلق الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے۔ اس الجھن کو ان کی جسمانی حرکات سے بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے، ہر بچہ پیدائشی طور سے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے ،اس لیےیہ ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے انفرادی رجحان اور مسائل پہ گہری نظر رکھیں، اس کو مخصوص توقعات کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انھیں ویسے ہی دیکھیں جیسے کہ وہ ہیں، اور انھیں وہ بننے دیں جو کہ وہ بننا چاہتے ہیں ۔اس طرح نہ صرف بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو صحیح رخ پہ لایا جا سکتا ہے بلکہ مسائل کا بروقت سد باب بھی کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
چھوٹے بچوں کی ذہنی نشوونما بہت تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے ۔اس دوران والدین اور ارد گرد رہنے والے لوگوں کے رویے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔بچے بالواسطہ اور بلاواسطہ ان سے سیکھتے ہیں ،ان کے رویوں کو دیکھتے ہوئے ان کی طرح خود پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہےکہ اسے بچوں کی نفسیات سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ہو۔ بچپن میں نہ صرف بچوں کے ذہنی رویوں کی بنیاد پڑتی ہے بلکہ ان کے اندر اعتقاد کی بنیاد بھی یہیں سے پڑتی ہے۔
سائنسی ایجادات کی دنیا میں تھامس ایڈیسن کا نام کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں۔ سب سے زیادہ ایجاد و دریافت کا سہرا تھامس ایڈیسن کے سر باندھا جاتا ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ ایسے تاریخی کارنامے انجام دینا اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔ہم میں سے بیش ترلوگ اس واقعے سے بھی واقف ہوں گے، جس میں اس کے ٹیچر نے اس کے ناقص ذہن کی بات کرتے ہوئے اسے اسکول سے نکال دیا تھا ۔اسی بچے نے آگے چل کر وہ کارنامہ انجام دیا جو کہ اس کی جماعت کے لائق فائق ساتھی بھی نہیں انجام دے سکے ،جس کے بالمقابل اسے رد کیا گیا تھا۔

Oct 02, 202315:27
کتب بینی عقلی و فکری ارتقاء کا ذریعہ ساجدہ منور فلاحی

کتب بینی عقلی و فکری ارتقاء کا ذریعہ ساجدہ منور فلاحی

’’مطالعہ ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ،کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا ،غور و خوض کرنا، کسی چیز سے آگاہ ہونا۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی کا آغاز لفظ ’’اقرأ‘‘ سے ہوتا ہے، جس میں تعلیم کی اہمیت اور کامیابی کا بہترین راز پنہا ںہے ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کے اندر دیکھنے کا ذوق پیدا کر دیا تھا،جو مذہب کے پس منظر میں پیدا ہو کر علم کی تمام شاخوں تک پھیلتا چلا گیا۔جب تک مسلمانوں نے علم سے تعلق جوڑے رکھا، کتب بینی کو اپنے معمول میں شامل رکھا، علم عرفان کے گوہر لٹاتے رہے۔مطالعے کے شوق نے مسلم معاشرے کو بڑے بڑے سائنس دان اور حکماء دیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتابوں سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا، وہی قومیں عروج اور ترقی حاصل کرسکیں۔
امریکی ناول نگار جارج مارٹن لکھتے ہیںکہ جو شخص مطالعہ کرتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے اس کے برعکس مطالعہ نہ کرنے والا محض ایک زندگی جیتا ہے۔ علم انسان کا امتیاز ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا سب سے بہتر اور مؤثر ذریعہ کتب بینی ہی ہے۔ ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر کا فریضہ بھی انتہائی اہم ہے۔ اس لحاظ سے مطالعہ ہماری معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ اگر انسان اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی پر اکتفا کر کے بیٹھ جائے تو فکر و نظر کا دائرہ انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا۔
کیونکہ مدارس ،اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیاں طالب علم کو علم و دانش کی دہلیز تک لا کر کھڑا تو کر دیتی ہیں، لیکن حصول علم کا اصل سفر اس کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ اساتذۂ کرام طلبہ کی کامیابی اور ترقی کی راستے کی طرف رہنمائی تو کر سکتے ہیں، لیکن ان طریقوں کو اپنانا طلبہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی طالب علم کامیاب بننے کی آرو رکھتا ہو، لیکن کلاس کے درس کو ہی کافی سمجھتا ہو اور کتب بینی کی مزیدضرورت محسوس نہ کرتا ہو تو اس کی مثال ’’کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہوماھو ببالغہ ‘‘کی طرح ہے۔ترقی وکامیابی کی منازل کو طے کر نے کی آرزو


Oct 02, 202312:14
ملت کا تعلیمی ایجنڈا: چند تجاویز(قسط:3) سید تنویر احمد

ملت کا تعلیمی ایجنڈا: چند تجاویز(قسط:3) سید تنویر احمد

دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کے لیے عصری تعلیم کے مراکز: ہمارے ملک میں دینی مکاتب و مدارس کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ الحمدللہ ان کی خدمات لائق ستائش ہیں ،جہاں یہ دین کے تحفظ اور ترویج کا ذریعہ ہیں، وہیں ملک میں خواندگی کی شرح میں ان کے ذریعے اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے دین کے یہ قلعے کچھ خارجی دباؤ اور مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کو عصری علوم سے جوڑا جائے۔
عصری علوم سے ان اداروں کو جوڑنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک آسان اور قابل عمل شکل ان اداروں کا این آئی او ایس(Naional institute of open schooling ) سے الحاق بھی ہے۔یہ مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک بورڈ ہے جو ابتدائی تعلیم ( کلاس سوم، کلاس پنجم اور کلاس ہشتم )، دسویں، بارہویں اور کچھ ڈپلوما کورسوں کو فاصلاتی نظام کے تحت چلاتا ہے۔ اس کے ذریعے دی جانے والی اسناد چاہے وہ دسویں جماعت کی ہو ںیا بارہویں جماعت کی یا ڈپلوما کورسوں کی یا ابتدائی کلاسوں کی، ان تمام اسناد کو ملک کے تمام تعلیمی بورڈ تسلیم کرتے ہیں۔
اس کے ذریعے بارہویں جماعت میں کام یاب ہونے والے طلبہ نیٹ (NEET) اور دیگر مسابقاتی امتحانات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس ادارے کا صدر دفتر دہلی کے علاقہ نوئیڈا میں واقع ہے، جب کہ ریاستی دفاتر متعلقہ ریاستوں کے صدر مقام پر قائم ہیں۔ یہ ادارہ مرکزی وزیر تعلیم کی راست نگرانی میں کام کرتا ہے۔ اس سے حاصل شدہ سرٹیفکیٹ کے ذریعے سرکاری نوکریاں اور محکمۂ دفاع کے مختلف شعبوں میں بھی داخلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس بورڈ کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ یہ بارہویں اور دسویں کے امتحانات کے علاوہ ’او بی ای ‘(Open basic education) اسکیم کے تحت درجہ سوم، درجہ پنجم اور درجہ ہشتم کے امتحانات بھی منعقد کرتا ہے۔ ان امتحانات میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد طالب علم اگر چاہے تو اپنی تعلیم ریگولر اسکول یا کالج میں جاری رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم ’او بی ای‘ اسکیم کے تحت درجہ سوم کا امتحان دیتا ہے ،اور اس میں کام یابی حاصل کرلیتا ہے ،تو وہ کسی بھی عام اسکول میں چوتھی جماعت (Class IV) میں داخلہ لے سکتا ہے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک طالب علم’ او بی ای‘ اسکیم کے تحت جماعت پنجم (Class V)کا امتحان دیتا ہے اور وہ کام یاب ہوجاتا ہے تو وہ کسی بھی عام اسکول میں درجہ ششم (Class VI) میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اسی طرح جماعت ہشتم (Class VIII) کا امتحان دینے والے طالب علم کو یہ موقع حاصل رہے گا کہ وہ درجہ نہم (Class IX)میں داخلہ لے۔
مضامین کا انتخاب اوپن بیسک ایجوکیشن یعنی درجہ سوم(Class III)، درجہ پنجم (Class V)اور درجہ ہشتم (Class VIII)، ان جماعتوں کے امتحانات کے لیے ضروری مضامین’ این آئی او ایس ‘کرتی ہے۔ اس میں دو زبانوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور تین مضامین ہوتے ہیں۔ تین مضامین میں ایک سائنس، دوسرا ریاضی اور تیسرا مضمون ’ای وی ایس‘ یعنی انوائرنمنٹل اسٹڈیز (ماحولیات کی تعلیم)ضروری مضامین ہیں۔یہ تو رہا معاملہ تیسری، پانچویں اور آٹھویں جماعتوں کے امتحانات کے لیے۔

Oct 02, 202312:32
جاگتے لمحے حرکت و عمل کی تاریخ ہے تبصرہ نگار: ڈاکٹر نکہت عروج

جاگتے لمحے حرکت و عمل کی تاریخ ہے تبصرہ نگار: ڈاکٹر نکہت عروج

’’ ادارہ ایک کنبے (Family) کی مانند ہے۔ یہاں توقعات وابستہ ہیں۔ دعوت دین کا میدان خشک نہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ ساتھ خوش گفتاری؛ تفنّن طبع کے لیے شگفتہ مزاجی؛ لطیفے؛ خندہ پیشانی اور ہنسی مزاح بھی ضروری ہے۔ ادارہ میں یہ سب رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اُمت کا غم بھی ہے۔ اپنی انفرادی و اجتماعی عبادات کے بعد دُعاؤں میں عالم اسلام کے لیے اللہ کی بارگاہ میں نم آنکھوں کے ساتھ دست دراز بلند بھی کرتے ہیں اور آپس میں موقع محل کی مناسبت سے کھیل کود بھی ہوتا ہے۔ اسلام زندہ دلی سکھاتا ہے۔ اور ادارہ سے وابستہ رفقاء کئی لحاظ سے زندہ دل ہیں۔‘ (صفحہ : 173)
ادارہ فلاح الدارین کے اصلاحی کاموں میں اصلاح معاشرہ کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ نشے (Drugs) کے خلاف جدوجہد قابل ستائش ہے، جس نے سینکڑوں نوجوانوں کی زندگی بچائی۔ نیز خدمت خلق کے تحت منظم سرگرمیاں حسن انتظام کی واضح دلیل ہیں۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر صاحب کے قلم سے ’’جاگتے لمحے‘‘ قاری کو حرکت و عمل، پیہم سعی و جہد سے ہر لمحہ جاگتے رہنے کا درس یاد کرواتی ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے راقم صاحبِ قلم کے شستہ و سلیس اردو، بہترین روانی اور لفظوں کی بندش کی قائل ہوگئی ہے۔ یوں تو پہلے ہی لکھا جاچکا کہ یہ 2015 ءتک کی تاریخ ہے؛ اس وجہ سے بھی؛ نیز قلم کے سحر کی وجہ سے بھی مزید فلاح الدارین ،بارہمولہ، کشمیر کی تاریخ جاننے کی تشنگی بڑھ گئی۔ اس کتاب میں خواتین اور بچوں کی سرگرمیوں کی تفصیلات پڑھنے کو واضح طور پر نہیں ملیں، جبکہ یقیناً ادارہ فلاح الدارین نے خواتین اور بچوں کے لیےبھی غیر معمولی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔امید قوی ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کو بھی کتاب میں جگہ ملے گی۔ہم ’’ جاگتے لمحے ‘‘ کےجلد دوم کے بے صبری سے منتظر ہیں۔


Oct 02, 202305:14
مسلمان جھوٹے خداؤں کے نرغے میں تبصرہ نگار: نازیہ عمر

مسلمان جھوٹے خداؤں کے نرغے میں تبصرہ نگار: نازیہ عمر

 انسان خالق حقیقی کی وہ خوبصورت تخلیق ہے، جس کے بنائے جانے پر فرشتوں نے اللہ کے حکم سےاسے سجدہ کیا ۔اللہ نے انسان کو علم عطا کیا اور اس علم کی بنیاد پر اسے فرشتوں پر فضیلت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دیاہوا علم ہی تھا جس کے بل بوتے پر انسان نے آج کے زمانے میں نظر آنے والی ہر شے یا ہر آرام دہ شے ایجاد کی، لیکن پھر اس دنیا میں ایسا کھویا کہ اپنے اصل خدا کو ہی بھلا بیٹھا،مگر اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے انسان پیدا کرتا ہے، جو انسانوں کو حق بات کی یاد دہانی کرواتےہیں ،اور اس کے بندوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتے ہیں ۔ پہلے یہ کام نبیوں کے ذریعے ہوا کرتاتھا،لیکن آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ پرآ ٹھہری ہے۔ اللہ جس سے چاہتا ہے اپنا کام کروا لیتا ہے۔
ایسی ہی ایک شخصیت جناب سلمان آصف صدیقی کی ہے، جو ایجوکیشنل سایئکالوجسٹ اور

(ERDC) Educational Resource Development Center

  کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں ۔موجودہ کتاب کے علاوہ مصنف نے بچوں کے لیے کئی درسی کتب بھی تیار کی ہیں۔ مصنف عصری نظام تعلیم کے سخت ناقد اور فطری تعلیم کے حامی ہیں۔کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:
’’مسلمان کی بہت بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے قول ،فعل اور حال سے خدائے واحد و حقیقی کی عظمت و کبریائی کی شہادت پیش کرے۔ اس تحریر کا مقصد چند عوامل واسباب کا تجزیہ کرنا ہے،جن کے باعث یہ ذمہ داری نبھانا دشوار ہو رہی ہے۔ 2020 ءمیں کروناوائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عالمی منظر نامہ اس گفتگو کا پس منظر اور محرک ضرور ہے ، موضوع نہیں۔‘‘
یہ کتاب مختلف عناوین پر مشتمل ہے ، جو بظاہر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں لگتے،لیکن بڑی خوبصورتی سے ان میں ربط پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیےاگر کسی وقت ایک باب پڑھتے ہوئے رک جائیں اور کچھ عرصہ بعد دوسرا باب پڑھیں تب بھی کتاب سے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ۔
’’سوال کیوں ضروری ہے؟‘‘ سے شروع ہو کر ’’کس کا راستہ ؟‘‘ تک قاری اپنے ورلڈ ویو کو بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔کتاب میں اکثر جگہوں پر قرآن اور حدیث کے حوالے بھی دیےگیے ہیں ،جن سے مصنف کی بات میں وزن پیدا ہوتا ہے۔ ان حوالوں کی تشریح اس خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ مصنف پرایک مفکر دین ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ جیسے : ’’بندگی کیا ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت جہاں حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیاہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:


Oct 02, 202306:21
درس حدیث ماریہ سعید فلاحی

درس حدیث ماریہ سعید فلاحی

  أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِیُّ حَدَّثَنَا جَدِّی حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنِی مَالِکٌ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- أَنَّہُ قَالَ : مَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ مَظْلَمَۃٌ لأَخِیہِ فَلْیَتَحَلَّلْہُ مِنْہَا فَإِنَّہُ لَیْسَ ثَمَّ دِینَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُؤْخَذَ لأَخِیہِ مِنْ حَسَنَاتِہِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ أُخِذَتْ مِنْ سَیِّئَاتِ أَخِیہِ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی أُوَیْسٍ.

( حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ اس سے معاف کروائے؛اس لیے کہ آخرت میں درہم و دینار نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو (مظلوم ) کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔)(صحیح بخاری2449۔3534)

’’ظلم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ۔عربی لغت میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:

الظلم،وضع الشیٔ علی غیر موضعہ

 یعنی ظلم کا مطلب ہے کسی بھی چیز کو اسک کی اصل جگہ سے ہٹاکر رکھنا ۔ظلم کے اصطلاحی معنی یہ ہے کہ کسی بات یا معاملات میں کمی بیشی جو حق و انصاف کے خلاف ہو،زبردستی کسی کی کوئی چیز لے لینا ،کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز کرنا ،گم راہی ،غلط کاری۔
پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہےکہ ظلم حرام ہے ۔نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے ارشاد فرمایا اے میرے بندو، میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو (صحیح مسلم ، باب تحریم الظلم)
علماء کرام نے ظلم کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

Oct 02, 202315:06
درس قرآن فردوس منظور

درس قرآن فردوس منظور

 أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَاۤ اِكۡرَاهَ فِى الدِّيۡنِ‌ۙ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّ‌ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌‌ ؕ وَاللٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞

(دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ہدایت گم رہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔ تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا، اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں ،اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔)
(سورۃ البقرہ : 256)

چونکہ قرآن شریف کی آیات ایک دوسرے سے باہم متصل اور متواتر وابستہ ہوتی ہیں ،چنانچہ درج بالا آیت کی تفسیر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سورہ ٔبقرہ کے موضوع بیان پر ایک نظر ڈال لیں۔
لا اکراہ فی الدین …
اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کا ایک سامان بھی ہے کہ ہدایت وضلالت دینے کا کام آپ کا نہیں، نہ ہی کسی بندۂ مومن کا ۔اللہ تعالیٰ نے حق و باطل سب کے سامنے واضح کر کے رکھ دیا ہے، اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے اس سے انکار کرے۔
ہم سورۂ بقرہ کے اسلوب پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ انداز بیان رکوع 32 سے ایک تقریر کے طور پر چل رہا ۔پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی، جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے تھے ۔پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں،بلکہ ایمان،صبر وضبط اور پختگی عزم پر ہے ۔پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیےوہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفاع کرتا رہتا ہے ،ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ واقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا ،تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا ۔
پھر اس شبہ کو دفع کیاگیا ہے ،جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغمبر اختلافات اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے، اور ان کی آمد کے باوجود اختلافات نہ مٹے ،نہ نزاعات ختم ہوئے تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا؟اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا ۔جو اسے مان لے گا وہ خود ہی فائدہ میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ آپ نقصان اٹھائے گا۔

https://haadiya.in/darse-quraan-3

Oct 02, 202306:52
دانہ پانی تبصرہ نگار:بشریٰ سلمان

دانہ پانی تبصرہ نگار:بشریٰ سلمان

تکبر اور عاجزی ،انسان کی دو ایسی خصلتیں ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ انسان کا مقام طے کرتی ہیں۔ جہاں عاجزی انسان کی ساری خامیوں کو ڈھانپ دیتی ہے ،وہیں تکبر ساری نیکیوں کو نگل جاتا ہے۔ عمیرہ احمد کی کتاب ’’دانہ پانی‘‘ انسان کی ان ہی دو خصلتوں کےاردر گردبنی گئی ایک کہانی ہے،جو مختلف لوگوں کے مختلف کردار اور ان کرداروں کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ عمیرہ احمد اسے دانہ کے تکبر اور پانی کی عاجزی کی داستاں کہتی ہیں۔ 
عمیرہ احمد پاکستان کی مشہور قلم کار اور اسکرین رائٹر بھی ہیں ۔ عمیرہ احمد کی پہلی کہانی  ’’زندگی گلزار ہے‘‘1998 ءمیں شائع ہوئی، جو انہوں نے محض اپنی  تحریر ٹھیک کرنے کے لیے لکھی تھی۔ اس کی مقبولیت کے سبب انھوں نے باقاعدہ ڈائجسٹ اور میگزینز کے لیے لکھنا شروع کیا ۔ان پچیس سالوں میں انھوں نے تقریباً تیس کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے بیش تر کہانیاں ڈراموں کی شکل میں بھی موجود ہیں۔ ’’میری ذات ذرّۂ بےنشاں‘‘ اور ’’پیرِ کامل‘‘سے انھیں بے پناہ شہرت ملی اور عمیرہ احمد کی یہ شہرت پاکستان کی سرحد کو پھلانگتے ہوئے غیر ملکی قارئین تک بھی پہنچ گئی۔ آبِ حیات، الف، ایمان امید اور محبت، عکس،حاصل اور لاحاصل ان کی کچھ مشہور کتابیں ہیں۔
دانہ پانی کی کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں’’جھوک جیون‘‘ میں بُنی گئی ہے،جہاں کےچوہدری اور ماشکی دو طبقے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ گامو ماشکی ان پڑھ اور غریب ہے، جو سارے گاؤں میں پانی پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔ اسے حق باہو کے کلام کے علاوہ کچھ نہیں آتا، جسے وہ ہر خوشی میں اور ہر غم میں پڑھتا ہے۔ وہ اور اس کی بیوی اللہ وسائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کہانی میں پانی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف تاجور ایک مالدار پیر کی بیٹی اور جھوک جیون کے چوہدری کی بیوی ہے، جو غرور اور تکبر لیے کہانی میں دانہ کاکردار ادا کرتی ہے۔
شروعات میں کہانی کی رو اچھی چلتی ہے۔ کہانی کا مزہ تب خراب ہو جاتا ہے جب یہ موضوع سے ہٹ کر ایک عشقیہ ناول میں بدل جاتی ہے۔ عمیرہ احمد کی بیش ترکہانیوں کی طرح گامو کی بیٹی موتیا بے انتہا خوبصورت لڑکی ہے، جس کے جیسا حسن سات گاؤں میں نہیں ہے۔ تاجور کے بیٹے مراد اور موتیا  کے اس طوفانی عشق کی کہانی بالکل ہی کامن اسٹوری لائن والی ادھورے عشق کی کہانی ہے۔ ہر وقت حق باہو کا کلام پڑھنے والا گامو اور دس سال اولاد کے لیے صبر کرنے والی اللہ وسائی کفر کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے آپ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ کہانی نہ دانہ کی تھی نہ پانی کی، نہ صبروشکر کی اور نہ ہی محبت کی بلکہ یہ کہانی صرف تاجور کی تھی۔

Sep 04, 202304:03
محدثات علم حدیث کی ارتقاء میں خواتین کی خدمات تبصرہ نگار : خان مبشرہ فردوس

محدثات علم حدیث کی ارتقاء میں خواتین کی خدمات تبصرہ نگار : خان مبشرہ فردوس

تو انہوں نے جواب دیا: ’’ فرد واحد کی فرد واحد سے روایت ، بہ شرط ایں کہ اس کا سلسلہ رسول ﷺ تک دراز ہو، یا اس کی سند کسی صحابی تک پہنچے،راوی کا دین مسلم اور معتبر ہو،وہ اپنی صدق بیانی کے لیے معروف ہو،مالہٗ اور ماعلیہ سے واقف ہو، حدیث میں تبدیلی واقع ہونے کے عمل سے واقف ہو،حدیث کے اصل متن میں ترسیل پر قادر ہو۔‘‘
خواتین کے فقہی مسائل کی وجہ سے بھی وہ راوی بنی ہیں ۔ان سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین سے مروی احادیث شرعی احکام کی بنیاد قرار پائیں اور یہ معروف طریقےکے مطابق ہوا۔ ان احادیث کو قبول کرتے ہوئے یہ خدشہ کبھی نہیں رہا کہ یہ خواتین سے مروی ہیں۔قاری جوں جوں پڑھتا جائے، اسلام کی حقانیت، انصاف پسندی پر اس کا دل عش عش کراٹھے ۔حضرت عمر ؓ کے زمانے کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں خواتین کو آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے علم و فہم اور ذکاوت کی بنیاد پر قاضی وقت کے فیصلے پر رائے دے سکتی تھیں ۔
باب دوم میں خواتین کے تعلیم یافتہ ہونے کا رجحان ، نیز بچوں کی تعلیم وتربیت ، خواتین کی علمی مجالس میں شرکت پر واقعات قلم بند کیے ہیں ۔ ایک واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں، جو یہاں اختصار سے بیان کیا جارہا ہے کہ حمراء بنت عبدالرحمٰن تابعیہ، فقیہہ، محدثہ تھیں ،انھوں نے ایک عدالتی فیصلے میں مداخلت کی تھی، جو ایک غیر مسلم شخص سے متعلق تھا اور چونکہ وہ جانتی تھیں ،اس لیے ان کی بات وقت کے قاضی نے تسلیم کی، مقصد یہی تھا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو ۔بات پیش کرنے والے کی آزادی، قبول کرنے والوں کا ظرف اور ہر دور میں خوف خداوندی یہ اس صالح معاشرے کی پہچان تھی ۔اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد کے معاشرے کا موازنہ کیا جائے تو عقل حیران ہوگی کہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ اتنی تیزی کے ساتھ انسانی ذہن نے ناقابل یقین ذہنی مسافت طے کی ہے ۔ مسلمان وحی الٰہی کو اپنے خالق کا قول گردانتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے وحی الٰہی کی حکم عدولی نا قابل تصور تھی۔

Sep 04, 202312:43
قافلے ٹھہرے ، نہ قدموں کی صدا ٹھہری ہے عمارہ فردوس

قافلے ٹھہرے ، نہ قدموں کی صدا ٹھہری ہے عمارہ فردوس

دوسرا اہم کام یہ کیا کہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو سلب کرلیا ،اور تیسرا ان کے نظام تعلیم کو فوراً تبدیل کردیا۔انگریزی سامراج نے ملک پر قابض ہوتے ہی سب سے پہلے یہی تین کام انجام دیے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ انگریزی نظام مسلط ہوگیا۔حالات کی یہ سنگینی ایک طرف تھی، تو دوسری جانب مسلمانوں کے سر پر کئی خطرات بھی منڈلا رہے تھے،بہت سے نئے فتنوں نے جنم لیا ، کہیں فتنۂ قادیانیت نے سر اٹھایا تو کہیں منکرین حدیث کا فتنہ ،کہیں الحاد کا فتنہ تو کہیں اشتراکیت کا فتنہ ،شدھی کرن کی تحریک نے بھی اسی دوران سر اٹھایا اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو بچانا مشکل ہوگیا۔
ایسے حالات میں جو شخصیتیں دینی و ملی فریضہ کو انجام دینے میں پیش پیش تھیں، ان میں مولانا ابو الکلام آزاداور مولانا محمد علی جوہر کا نام نمایاں ہے ،ساتھ ہی علامہ اقبالؒ بھی اپنے مایۂ ناز فکری اثاثے کو ضبط تحریرمیں لا کر ملت کی فکری و نظریاتی رہنمائی میں مصروف عمل تھے ۔جب مغربی تہذیب خم ٹھونک کر دنیا پر چھانے کے لیے تیار نظر آئی تو علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے اس تہذیب نو کے غلبہ سے ملت اسلامیہ کو بچانے کے لیے اپنے قلم کی دھار سے اس رخ کو موڑنے کا کام کیا ۔اقبال اس صدی میں نہ صرف ایک عظیم شاعر اسلام تھے بلکہ بالغ نظر مفکر ،بلند پایہ فلسفی اور اسلام کے سچے ترجمان و معمار تھے ،جنھوں نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید میں نمایاں کردار ادا کیا ۔اقبال نے اس تہذیب نوی پر کاری ضربیں لگاتے ہوئے کہا کہ

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف


Sep 04, 202308:32
درس حدیث ثمینہ شاہ نواز

درس حدیث ثمینہ شاہ نواز

(حضرت عمرو بن عاص کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:’’کیا یہ میری خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے رہتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو؟‘‘ میں نے کہا :’’جی ہاں، یہ صحیح ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی، روزے بھی رکھو اور بلا روزے بھی رہو، کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو گی، تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھو، کیوں کہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے، اس طرح زندگی بھر کا روزہ ہو گا۔‘‘ انھوں نے بیان کیا کہ میں نے سختی چاہی تو آپ نے میرے اوپر سختی کر دی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر ہر ہفتے تین روزہ رکھا کر، بیان کیا کہ میں نے اور سختی چاہی اور آپ نے میرے اوپر سختی کر دی۔‘‘ میں نے عرض کیا : ’’میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر اللہ کے نبی داو‘د علیہ السلام جیسا روزہ رکھو۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’اللہ کے نبی داو‘د علیہ السلام کا روزہ کیسا تھا؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک دن روز،ہ ایک دن افطار ،گویا آدھی عمر کے روزے۔‘‘ عبداللہ جب بوڑھے ہوگئے تو وہ کہتے تھے: ’’کتنا اچھا ہوتا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی رخصت قبول کرلی ہوتی۔‘‘(صحيح البخاري، حدیث نمبر: 1975 )

Sep 04, 202307:10